اسٹیبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کیلئے تعمیری تنقید ضروری ہے، عمران خان

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2022
عمران خان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کا نقصان نظر نہیں آرہا ہے--فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کا نقصان نظر نہیں آرہا ہے--فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین نے جمہوریت کے لیے اظہار رائے کی آزادی ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کے لیے تعمیری تنقید ضروری ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مغربی ممالک کی جمہوریت دو بنیادوں پر کھڑی ہے، پہلے نمبر پر قانون کی بالادستی ہے۔

مزید پڑھیں: آرٹیکل 6 لگاؤ، بتانے کا موقع ملے گا کہ کس نے ملک سے کس قسم کی غداری کی، عمران خان

انہوں نے کہا کہ جب برطانیہ پر ہٹلر حملہ آور تھا تو چرچل کے پاس لوگ گئے اور پوچھا کہ کیا ہمارا ملک بچ جائے گا تو اس نے بجائے یہ کہنے کہ ہماری فوج کتنی تگڑی ہے جواب دیا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو ہم کبھی تباہ نہیں ہوسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا ان کی اخلاقیات اور قیادت کی اخلاقیات بڑے معیار کی ہیں جو میں نے پاکستان کے اندر نہیں دیکھی۔

عمران خان نے کہا کہ تیسرا اظہار رائے کی آزادی ہے، ہائیڈ پارک میں اتوار کو جا کر کوئی بھی جو مرضی بولنا چاہتا تھا کہتا تھا لیکن عوامی سطح پر کسی کی کردار کشی پر بہت سخت قوانین ہیں اور میں نے بوتھم اور ایلن لیمب کے خلاف عدالت میں مقدمہ لڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وہاں اتنے سخت معیار ہیں کہ اگر آپ کسی کی توہین کرتے ہیں تو ایک انسان کو اپنی عزت کے تحفظ کے لیے جو حق وہ پاکستان میں کبھی نہیں دیکھا۔

'فوج اور دو خاندانوں نے قانون کی بالادستی نہیں ہونے دی'

ان کا کہنا تھا کہ انگریز جب یہاں سے واپس گیا تھا تو اس وقت بھی ہمارا اخلاقی معیار کافی بلند تھا لیکن آہستہ آہستہ نیچے چلی گئی، اس کی اصل وجہ قانون کی بالادستی نہ ہونا ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی اس لیے نہیں ہے کہ فوج آمروں نے 64 سال میں آدھا فوج آمروں نے حکومت کی اور آدھا ان دو خاندانوں نے حکومت کی ہے لیکن ان دونوں کے دور میں قانون کی بالادستی نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: مسٹر ایکس نے مسٹر وائی کو دھاندلی کیلئے ملتان بھیج دیا ہے، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ جب ایک فوجی آمر ملک کو سنبھالتا ہے تو وہ خود بخود قانون توڑ دیتا ہے اور خود کو قانون سے بالا تر رکھتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرے۔

'صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کی کچھ اور وجوہات تھیں'

میڈیا پر پابندیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے میڈیا سے کوئی اعتراض نہیں تھا، ساڑھے تین سال میں مجھ پر جتنی تنقید ہوئی کسی وزیراعظم کی نہیں ہوئی، میں نے کبھی میڈیا کو پیسے کھلانے کی کوشش نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے دور میں سوائے نجم سیٹھی کے خلاف ایک کیس کے کسی میڈیا پر کارروائی نہیں کی، نجم سیٹھی نے میری ذات پر حملہ کیا تھا اس لیے عدالت میں گیا۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کے بغیر دنیا میں کوئی انسانی معاشرہ ترقی نہیں کرپاتا۔

انہوں نے کہا کہ تین چار مرتبہ کابینہ اجلاس میں بیٹھے تھے تو پتہ چلا کہ کسی صحافی کو اٹھا لیا گیا ہے، کسی کو بھی میرے احکامات پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا مسئلہ یہ تھا کہ جعلی خبریں آتی تھیں، میرے وزرا کے بارے میں جھوٹی خبریں آئیں تو میں نے انہیں وٹس ایپ کیا کہ اپنا دفاع کرو لیکن وہ جھوٹی خبریں تھیں اور دو وزرا نے لندن میں جا کر مقدمہ کیا اور جیت کر آئے لیکن یہاں کچھ نہیں ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ ایک اور عنصر سوشل میڈیا آچکا ہے جہاں کئی مرتبہ غلیظ چیزیں آرہی تھیں، دراصل دنیا بھر میں یہ مسئلہ ہے اور بحث جاری ہے کہ اس سے کیسے نمٹنا ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جھوٹی خبروں سے متعلق چیک اینڈ بیلنس ہوناچاہیے۔

'آرمی چیف سے لاپتا افراد کے بارے میں بات کرتا تھا'

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے تو سماجی مسائل پیدا ہوئے اور عافیہ صدیقی کو اٹھایا گیا اور لاپتا افراد کا مسئلہ سامنے آیا جس کے لیے 2003 میں سب سے پہلے مظاہرہ میں نے کیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جب تک میں حکومت میں نہیں آیا اس وقت تک فوج کا نکتہ نظر معلوم نہیں تھا اس لیے اس کے خلاف بولتا رہا کیوںکہ جن کے رشتہ دار اٹھا لیے جاتے تھے تو وہ میرے پاس آتے تھے جو دردناک کہانیاں تھیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کے بوٹ پالش کرنے سے بہتر ہے پاکستان نہ بنتا، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں لوگوں کو اٹھالیا جاتا تو قومی سلامتی کمیٹی میں آتا تھا اور میں نے جب جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے اس حوالے سے بات کی اور انہوں نے کئی لوگوں کو چھوڑا۔

انہوں نے کہا کہ وہ کہتے تھے کہ عدالت میں مسئلہ آتا ہے کیونکہ ایک دہشت گرد کو عدالت لے کر جاتے ہیں تو ثابت کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے کہ ثبوت کہاں سے آتے ہیں، پھر امریکا اور انگلینڈ کی مثال دی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ایسی چیز ہے کہ عدالتوں میں ان کو ثابت کرنا مشکل پڑ رہا تھا اور فوج ڈرتی تھی کہ آپ ان کو پھر چھوڑ دیں گے اور وہ دوبارہ ہمارے خلاف سرگرمیاں شروع کردیں گے، اس پر بھی ہم ایک نتیجے پر پہنچے تھے اور منظور کرنے لگے تھے کہ کسی بھی لاپتہ فرد کے بارے میں وقت دیں لیکن رشتہ داروں کو تو پتہ ہو لیکن یہ ان کا نکتہ نظر تھا۔

'جنرلز اور لیڈرز کے لیے یوٹرن لینا ضروری ہوتا ہے'

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں طاقت ور فوج ایک بڑا اثاثہ ہے، اس کو ہمیں بچانا ہے کیونکہ گر عوام اور فوج کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں جو بڑھ رہے ہیں تو اس سے فوج اور پاکستان کونقصان ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو تفریق کرنا چاہیے کہ کب آپ تعمیری تنقید کر رہے ہیں اور کب نقصان پہنچا رہے ہیں، جب ایک اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت یہ ہوتی ہے کہ صحافیوں کو پکڑ رہے ہیں اور جب سمجھیں فوج پر تھوڑی تنقید ہوئی ہے تو کارروائی کی تو اس سے فوج کو نقصان پہنچے گا، اس سے فائدہ نہیں ہوگا اور معلومات رک نہیں سکتیں۔

حکومتی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی یہ سوال پوچھے کہ واضح طور پر بند کمرے میں جو بھی فیصلہ ہوا ہے اور حمایت کرنے گئے ہیں کیا یہ پاکستان کا فائدہ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ایک کرپٹ حکومت کی حمایت کرنے سے کتنا نقصان ہو رہا ہے کیا اسٹیبلشمنٹ کو نظر نہیں آرہا ہے اور کیا یہ ٹھیک کام کر رہے ہیں، کس نے فیصلہ کیا، بند کمروں میں پلان اے بنتا ہے، پلان بی بھی بند کمروں میں بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی دو طاقت ور ترین فوجیں 1941 میں ہٹلر اور دوسری نپولین کی تھی اور دونوں فوجیں روس کے اندر تباہ ہوگئیں کیونکہ جب وہ حملہ کر رہے تھے تو روس میں سردیاں آرہی تھیں لیکن جنرلز نے ان کو بڑا سمجھایا تھا لیکن وہ مانے نہیں حالانکہ اس وقت یوٹرن لینا چاہیے تھا اور یوٹرن جنرلز اور لیڈرز کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ کسی بھی لیڈر کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ غلطی ہوتی ہے، بہتر ہوتا ہے غلطی جان کر واپس آجائیں اور دونوں بڑی فوجیں روس میں تباہ ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ ساری قوم اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے کیونکہ طاقت ان کے پاس ہے، اپنی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کے لیے تعمیری تنقید ضروری ہے، ہمارے صحافیوں کو موقع دیا جائے، غلطی سب سے ہوتی ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے شفاف انتخابات کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے، دوسرے راستوں میں مسئلے ہی مسئلے ہیں، ناکامی کو مسلط کریں گے تو قوم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مزید فاصلے بڑھتے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مارشل لا کا دور گزر چکا ہے اور جمہوریت مضبوط ہونی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں