اداروں پر تنقید کرنے والوں کی حمایت کیسے کرسکتا ہوں، چوہدری شجاعت حسین

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2022
چوہدری شجاعت نے کہا کہ سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت بنا کر غلط معنٰی نکالنے کی کوشش نہ کریں—فائل فوٹو : ڈان نیوز
چوہدری شجاعت نے کہا کہ سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت بنا کر غلط معنٰی نکالنے کی کوشش نہ کریں—فائل فوٹو : ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا ڈرامائی انداز میں رخ موڑنے والے سربراہ پاکستان مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اور اپنے کزن چوہدری پرویز الہٰی کی مخالفت کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں اداروں پر تنقید کرنے والوں کی حمایت کیسے کرسکتا ہوں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے سلسلہ وار ٹوئٹس میں واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے ان کے امیدوار پرویز الٰہی ہی تھے، ہیں اور رہیں گے لیکن وہ انہیں پی ٹی آئی کا نامزد امیدوار بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

چوہدری شجاعت نے اپنی ٹوئٹس میں لکھا کہ ’اداروں کے ساتھ 30 برس سے ایک تعلق رہا ہے، میں اداروں پر تنقید کرنے والوں کی حمایت کیسے کر سکتا ہوں، ادارے ہیں تو پاکستان میں استحکام ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ(ق) کے ووٹ مسترد، حمزہ شہباز دوبارہ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب

انہوں نے لکھا کہ ’ملک اس وقت جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس میں تمام لیڈران اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی سوچ کو بالائے طاق رکھیں تاکہ ملک مزید بحرانوں کا شکار نہ ہو جائے ورنہ عوام اور ادارے اور ملک مزید نظریوں میں تقسیم ہوگا اور ملک مفاد پرستوں کے ہتھے چڑھ جائے گا‘۔

پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الہٰی نے تصدیق کی کہ یہ اکاؤنٹ واقعی مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کا ہے اور اسے ان کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین چلا رہے ہیں۔

چوہدری شجاعت حسین نے اپنی ٹوئٹس میں مزید لکھا کہ ’سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت بنا کر غلط معنٰی نکالنے کی کوشش نہ کریں اور سب کچھ بھول کر صرف اور صرف ملکی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے محاذ آرائی والی سیاست کو ترک کردیں‘۔

سلسلہ وار ٹوئٹس کے اختتام پر انہوں نے لکھا کہ ’جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملے وہ سیاسی مخالفین کے پاس جائے اور ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے لیے مل بیٹھ کر مشاورت سے آگے بڑھا جائے‘۔

دوسری جانب مونس الٰہی نے دعویٰ کیا کہ چوہدری شجاعت پر بہت زیادہ دباؤ تھا اور انہوں نے عمران خان کے امیدوار کے طور پر پرویز الٰہی کی حمایت کرنے سے معذرت کرلی تھی۔

گزشتہ روز اپنی ضمانت کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مونس الہٰی سے سوال کیا گیا کہ چوہدری شجاعت پر کس قسم کا دباؤ ڈالا گیا، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو یہ سوال چوہدری شجاعت سے ہی کرنا چاہیے۔

مونس الٰہی نے کہا کہ گزشتہ روز چوہدری شجاعت سے خط کے حوالے سے بات ضرور ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے خط ضرور لکھا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ(ق) کے ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کسی کو بھی ووٹ نہ دیں۔

مزید پڑھیں: معاملہ شجاعت، زرداری اور پرویز الٰہی کا: کب اور کیا کچھ ہوا؟

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس پر کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ پرویز الہٰی ابھی الیکشن نہ جیتیں جس پر انہوں نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ضرور بنیں لیکن عمران خان کے نہ بنیں۔

مونس الٰہی نے کہا کہ میں نے شجاعت صاحب سے کہا کہ اس طرح پرویز الٰہی الیکشن ہار جائیں تو وہ خاموش ہو گئے، میں نے ان سے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی لیکن ان پر کمرے میں کوئی اور دباؤ بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے معذرت کر لی تو پھر میں نے بھی معذرت کر لی۔

واضح رہے کہ چوہدری شجاعت کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے روز پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر/پریزائیڈنگ افسر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ’مسلم لیگ (ق) کے صدر نے وزیراعلیٰ کے امیدوار پرویز الٰہی سمیت پارٹی کے تمام 10 ارکان اسمبلی کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے ووٹ حمزہ شہباز کے حق میں ڈالیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'عدالتی فیصلے کو غلط سمجھا گیا'، حمزہ شہباز کی کامیابی پر قانونی ماہرین کی رائے

خط کے ساتھ مسلم لیگ (ق) کے صدر کی جانب سے پارٹی کے ارکان اسمبلی کو جاری ہدایات کی کاپیاں بھی فراہم کی گئیں جو الیکشن کے روز جاری کی گئیں تھیں تاہم یہ خطوط تاحال میڈیا کو فراہم نہیں کیے گئے۔

دریں اثنا چوہدری شجاعت نے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی جس میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں