میزائل حملے کے باوجود یوکرین کی اناج برآمدات کے لیے کوششیں جاری

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2022
میزائل حملے کے باوجود بھی یوکرین کی اناج برآمدات کے لیے کوششیں جاری—فوٹو: رائٹرز
میزائل حملے کے باوجود بھی یوکرین کی اناج برآمدات کے لیے کوششیں جاری—فوٹو: رائٹرز

روس کی طرف سے میزائل حملے کے بعد بھی یوکرین نے اوڈیسا اور بحیرہ اسود کی دیگر بندرگاہوں سے اناج کی برآمدات کو دوبار شروع کرنے کی کوششیں جاری رکھیں جس نے اس بات پر شکوک پیدا کیے ہیں کہ آیا جنگ کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں پیدا ہونے والی خوراک کی قلت میں کمی کرنے کے لیے روس معاہدے کا احترام کرے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق یوکرین کے صدر ولادیمیر زلینسکی نے اوڈیسا شہر پر کی گئی گولہ باری کی مذمت کی ہے اور اسے 'ظلم' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کرنے لیے روس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

حکومتی وزیر نے کہا ہے کہ اناج برآمدات کی بحالی کے لیے تیاریاں جاری ہیں جبکہ عوامی نشریاتی ادارے سسپائلن نے یوکرین کی مسلح افواج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میزائل نے واضح طور پر بندر گاہ کو نقصان نہیں پنچایا۔

مزید پڑھیں: روس-یوکرین جنگ کے نتائج پر امریکا نے پاکستان کو خبردار کردیا

دوسری جانب روس نے کہا ہے کہ اس نے اوڈیسا شہر میں یوکرین کی فوج کے ایک بیڑے پر میزائل سے حملہ کیا ہے۔

ماسکو اور کیف کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کو سفارتی پیش رفت کے طور پر سراہا جا رہا ہے جس سے عالمی سطح پر خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی لیکن اتوار کو جنگ چھٹے مہینے میں داخل ہونے کے بعد اس جنگ میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔

روس یوکرین کی جنگ کا مرکز ڈونباس کا مشرقی علاقہ رہا ہے، ولادیمیر زیلنسکی نے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا کہ یوکرین کی افواج آہستہ آہستہ مقبوضہ مشرقی بحیرہ اسود کے علاقے کھرسن کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

یوکرین کی فوج نے اتوار کے روز شمال، جنوب اور مشرق میں متعدد مقامات پر روسی گولہ باری کا دعویٰ کیا اور کارروائیوں کا حوالہ دیا جو ڈونباس شہر میں حملے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

یوکرین کی فضائی فوج نے کہا کہ اس نے اتوار کی صبح بحیرہ اسود سے روسی افواج کی طرف سے چھوڑے گئے تین کلیبر کروز میزائلوں کو مار گرایا جن کا مقصد مغربی خمیل نیتسکی علاقے کو نشانہ بنانا تھا۔

دوسری جانب، اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا، برطانیہ، جرمنی اور اٹلی نے یوکرین کے شہر اوڈیسا پر کی گئی گولہ باری کی مذمت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس، یوکرین جنگ کئی برسوں تک جاری رہ سکتی ہے، نیٹو سربراہ

ترکی کے وزیر دفاع نے ہفتے کے روز کہا کہ روسی حکام نے انقرہ کو مطلع کیا کہ ماسکو کا ان حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تاہم اتوار کو روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا کہ روسی افواج نے اوڈیسا میں یوکرین کی ایک فوجی کشتی کو میزائل سے نشانہ بنایا ہے جبکہ روس کی وزارت دفاع نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔

یوکرین فوج کے مطابق دو روسی کلیبر میزائل بندرگاہ کے ایک پمپنگ اسٹیشن کے علاقے میں گرے اور دو دیگر کو فضائی دفاعی فورسز نے مار گرایا۔

یوکرین کی فضائیہ کے ترجمان یوری اگنٹ نے کہا کہ میزائل کریمیا کے قریب بحیرہ اسود میں جنگی جہازوں سے فائر کیے گئے تھے۔

اوڈیسا کے علاقے کے گورنر میکسم مارچینکو نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ افراد زخمی ہیں جبکہ بندرگاہ کے انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے۔

انفراسٹرکچر کے وزیر اولیکسینڈر کبرکوف نے فیس بک پر کہا کہ بندرگاہوں سے زرعی مصنوعات کی برآمدات کے آغاز کے لیے تکنیکی تیاری جاری ہے۔

اقوام متحدہ کے حکام نے کہا کہ یہ معاہدہ دوبارہ کھولی گئی تین بندرگاہوں سے اناج کی ترسیل کو ماہانہ 50 لاکھ ٹن کی سطح پر بحال کر دے گا جو کہ جنگ سے قبل ہوتی تھی۔

محفوظ راستہ

بظاہر یہ حملے جمعہ کو طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزیاں ہیں جن سے یوکرین کی بندرگاہوں کے اندر اور باہر جانے کے لیے محفوظ راستوں کی اجازت ہوگی۔

ولادیمیر زیلنسکی نے اوڈیسا کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کو مار گرانے کے قابل فضائی دفاعی نظام حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کا عزم کیا ہے۔

مزید پڑھیں: روس کا شہریوں کے انخلا کیلئے یوکرین میں جزوی جنگ بندی کا اعلان

ماسکو کے 24 فروری کے حملے کے بعد سے روس کے بحیرہ اسود کے بحری بیڑے کی طرف سے یوکرین کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی سے لاکھوں ٹن اناج پھنس گیا ہے اور بہت سے بحری جہاز بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

اس عمل کی وجہ سے عالمی سطح پر اناج کی رسائی سخت متاثر ہوئی ہے اور روس پر مغربی پابندیوں کے ساتھ اس نے خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراط زر کو بڑھا دیا ہے، عالمی خوراک کے پروگرام کے مطابق روس اور یوکرین وسیع پیمانے پر گندم فراہم کرنے والے عالمی ممالک ہین اور ان میں کشیدگی نے عالمی خوراک کے بحران نے تقریباً 47 ملین افراد کو بھوک میں دھکیل دیا ہے۔

عالمی سطح پر خوراک کی قلت کا ذمہ دار ہونے سے ماسکو نے انکار کیا ہے جبکہ اس نے خوراک اور کھاد کی برآمدات میں کمی کے لیے مغربی پابندیوں اور یوکرین کو اپنی بندرگاہوں تک پہنچنے کے لیےذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ کل کے معاہدے کے بعد اوڈیسا پر حملہ روس کی ساکھ پر سنگین شکوک پیدا کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد ناگزیر ہے۔

ترکی کے وزیر دفاع ہولوسائی آکار نے ایک بیان میں کہا کہ روسیوں نے ہمیں بتایا کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا واقعہ کو کو ہونے والے معاہدے کے فوراً بعد ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس، یوکرین جنگ پر پاکستان ’غیر جانبدار‘ ہے، وزیر خارجہ

یوکرین نے اپنے جنگی دفاع کے حصے کے طور پر اپنی بندرگاہوں کے قریب پانی کی کان کنی کی ہے، لیکن معاہدے کے تحت پائلٹ محفوظ راستوں کے لیے جہازوں کی رہنمائی کریں گے۔

ولادیمیر پیوٹن نے اس جنگ کو 'خصوصی فوجی آپریشن' قرار دیا ہے جس کا مقصد یوکرین کو غیر مسلح بنانا اور خطرناک قوم پرستوں کو ختم کرنا ہے لیکن یوکرین اور مغرب نے اسے زمین پر قبضے کا بہانہ قرار دیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں