اسلام آباد کا سیف سٹی پروجیکٹ حکومت کیلئے سفید ہاتھی بن گیا

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2022
ترجمان پولیس نے بتایا کہ کُل ایک ہزار 997 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے اس وقت ایک ہزار 992 آپریشنل ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
ترجمان پولیس نے بتایا کہ کُل ایک ہزار 997 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے اس وقت ایک ہزار 992 آپریشنل ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

دارالحکومت اسلام آباد میں 6 سال قبل ساڑھے 12 کروڑ روپے مالیت کا سیف سٹی پروجیکٹ کا افتتاح کیا گیا تھا جو تاحال مطلوبہ نتائج اور اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کی مدد سے کسی ایک واردات یا جرم کو روکا نہیں جاسکا اور نہ ہی کسی مجرم کو گرفتار کیا گیا، اس کے علاوہ 2 اسکینرز (جو کہ اس منصوبے کا حصہ تھے) بھی غائب ہوگئے جن کا کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔

سینیر پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کو جون 2016 میں ایک ہزار 950 سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ آپریشنل کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک اس سسٹم کی مدد سے کسی بھی واقعے یا جرم کی روک تھام نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کیمروں سے کسی مجرم، مشتبہ شخص یا اشتہاری ملزم کو گرفتار کیا جاسکا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ منصوبہ پولیس کو مجرمانہ سرگرمیوں کے بعد فرار ہونے والے ملزمان کا پیچھا کرنے اور گرفتار کرنے میں مدد دینے میں بھی ناکام رہا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں ’سیف سٹی‘ منصوبے کا افتتاح

سیکیورٹی کیمروں کے ذریعے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ کر دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے یہ منصوبہ 2014 میں شروع کیا گیا تھا، 6 ارب روپے کے اس منصوبے کا آئیڈیا ابتدائی طور پر 2008 میں پیش کیا گیا تھا لیکن 2014 تک فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے شروع نہیں کیا جا سکا۔

منصوبے کے تحت سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی کے لیے کنٹرول روم میں 130 ایل ای ڈی اسکرینیں لگائی گئیں، یہ اسکرینیں 25 کروڑ روپے کے جدید ترین سافٹ ویئر سے لیس ہیں جو اس وقت صرف امریکا اور انگلینڈ میں استعمال ہو رہے ہیں۔

افسران نے بتایا کہ اس منصوبے کا مقصد دہشت گردی اور جرائم کی روک تھام اور مشتبہ افراد پر نظر رکھنا اور کیمروں سے نگرانی کے ذریعے مطلوبہ ملزمان کو گرفتار کرنا تھا۔

جرم کے ارتکاب کے بعد فرار ہونے والے ملزمان کا پیچھا کرنا اور انہیں گرفتار کرنا بھی اس منصوبے کے مقاصد میں شامل تھا لیکن حکام کے مطابق ایک ہزار 806 انٹرایکٹو ویڈیو سسٹمز (آئی وی ایس) اور 191 آٹومیٹک نمبر پلیٹ ریڈرز کے باوجود 6 سال کی مدت کے دوران یہ منصوبہ بے انتظامی اور دیگر وجوہات کے سبب اپنا بنیادی مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں کروڑوں کا سیف سٹی منصوبہ مکمل طور پر ناکام

افسران نے بتایا کہ یکم جنوری 2016 سے اسلام آباد پولیس نے 57 ہزار 719 مقدمات درج کیے، جن میں شہریوں کے خلاف 7 ہزار 628 جرائم اور ڈکیتی اور چوری کی 17 ہزار 857 وارداتیں شامل تھیں، لیکن ان جرائم کی روک تھام کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کا تعاون 15 فیصد سے زیادہ نہیں رہا۔

تاہم اس منصوبے نے پولیس کو موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج اور مظاہروں پر قابو پانے اور مظاہرین کی شناخت میں مدد فراہم کی، لہٰذا افسران کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس منصوبے نے شہریوں کے بجائے حکومت کی خدمت کی۔

اس سے قبل پولیس نے روایتی پولیسنگ کے ذریعے مقدمات کو حل کیا اور ملزمان کو گرفتار کیا جسے موبائل ٹریکنگ سسٹم یا جیو فینسنگ سے تبدیل کردیا گیا، اس لیے سیف سٹی سے کوئی فرق نہیں پڑا تاہم اس سے محض تفتیش کاروں کے کام میں آسانی ہوئی۔

سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی مناسب بیک اپ نہیں ہے اور 60 روز کی ریکارڈنگ کے لیے صرف ایک بیک اپ دستیاب ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب نے سیف سٹی پروجیکٹ کی تفصیلات طلب کرلیں

زیادہ تر اوقات میں مختلف وجوہات کی بنا پر یہ سی سی ٹی وی کیمرے غیر فعال ہوجاتے ہیں، گزشتہ ایک ماہ کے دوران تقریباً 300 سی سی ٹی وی کیمروں کی مرمت کر کے انہیں دوبارہ آپریشنل کیا گیا۔

افسران نے کہا کہ اب سیف سٹی پروجیکٹ کے کنٹرول روم کو چلانے کے لیے سی سی ٹی وی اور سافٹ ویئر پرانے ہو چکے ہیں، یہ سی سی ٹی وی کیمرے رات کے وقت یا بارش میں کام نہیں کر سکتے، لہٰذا اس منصوبے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بہت سے مسائل ہیں۔

اس منصوبے کے تحت اسلام آباد میں ایک ہزار 997 کیمرے نصب کیے گئے تھے لیکن گزشتہ 6 برسوں کے دوران دارالحکومت کی حدود میں توسیع ہوچکی ہے اور اب ان کیمروں کی موجودہ تعداد اسلام آباد کے صرف 40 فیصد علاقوں کی نگرانی کر سکتی ہے۔

سیف سٹی پروجیکٹ آفس میں صرف 70 اسکرینیں نصب ہیں اور 72 اہلکاروں کی ٹیم مختلف شفٹوں میں اسکرینوں کی نگرانی کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: انارکلی دھماکا تحقیقات: ناکارہ سیف سٹی کیمرے دہشت گرد کا سراغ لگانے میں ناکام

انہوں نے مزید کہا کہ 1997 سے سی سی ٹی وی کی تعداد کو 4 ہزار تک بڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ نگرانی کے لیے زیادہ اسکرینیں اور عملہ دستیاب نہیں ہے۔

افسران نے مزید بتایا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت 2 اسکینرز بھی خریدے گئے تھے اور ان میں سے ایک اس وقت کراچی کو دیا گیا تھا جبکہ دوسرا اسکینر غائب ہوگیا۔

رابطہ کرنے پر پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ کُل ایک ہزار 997 سی سی ٹی وی کیمرے تھے جن میں سے اس وقت ایک ہزار 992 آپریشنل ہیں۔

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ سیف سٹی پروجیکٹ کی مدد سے اب تک ایک بھی واردات/جرم کو نہیں روکا گیا اور نہ ہی کوئی ملزم پکڑا گیا جبکہ اس کے آپریشنل ہونے کے بعد سے 3 ہزار 785 کیسز حل کیے جاچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور میں سیف سٹی اتھارٹی کے 2 ہزار سے زائد کیمرے خراب ہونے کا انکشاف

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمروں تک صرف پولیس کی رسائی ہے، تاہم اگر ضرورت ہو تو دیگر ایجنسیوں اور محکموں کو مناسب پروٹوکول کے ذریعے رسائی دی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کی رازداری کو بین الاقوامی قوانین اور الیکٹرانک ڈیٹا ریگولیشنز ایکٹ 2016 کے ذریعے یقینی بنایا جاتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Jul 31, 2022 04:12pm
اس کے مقابلے میں اگر رہائشیوں کو ان کے علاقوں میں اچھے کیمرے لگانے کی ترغیبات مناسب قیمت اور رہائشی ثبوت کی بنیاد پر دی جائیں تو وہ ان آلات کو خود کار آمد رکھیں گے اور ضرورت پڑھنے پر بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے ۔