پی ڈی ایم کا عمران خان کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن میں ریفرنس

اپ ڈیٹ 05 اگست 2022
بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے عمران خان کی نااہلی کے لیے ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو جمع کروایا — فائل فوٹو: اسکرین گریب
بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے عمران خان کی نااہلی کے لیے ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو جمع کروایا — فائل فوٹو: اسکرین گریب

مختلف جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے تعلق رکھنے والے اراکین نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی نا اہلی کے لیے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کر دیا۔

رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے نااہلی کے لیے ریفرنس چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو جمع کروایا جس پر قومی اسمبلی کے اراکین آغا حسن بلوچ، صلاح الدین ایوبی، علی گوہر خان، سید رفیع اللہ آغا اور سعد وسیم شیخ کے دستخط تھے۔

مزید پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی نے 30 دن کی ڈیڈ لائن کو چیلنج کردیا

منگل کو الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی مرضی سے جان بوجھ کر غیر ملکی باشندوں سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی اور مزید لکھا کہ عمران خان پاکستانی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے فوری بعد حکومتی اتحاد کے متعدد وزرا، رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف سخت کارروائی اور انہیں نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

گزشتہ روز پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ عمران خان کو نااہل قرار دے کر مثال قائم کریں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم ہاؤس میں مشترکہ اتحاد کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جیسا کہ عمران خان صادق و امین نہیں رہے اس لیے ان کے خلاف ریفرنس دائر ہونا چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت، قانونی نتائج کیا ہوسکتے ہیں ؟

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو موصول ریفرنس میں ای سی پی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف)، 63 (2) اور 63 (3) کے تحت عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے، تاہم اپنے دعوے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ریفرنس میں دستاویزی ثبوت بھی شامل کیے گئے ہیں۔

آرٹیکل 62 (1) (ایف) کہتا ہے کہ ’کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب یا منتخب ہونے کا اہل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ سمجھدار، نیک اور غیرت مند، ایماندار اور امین نہ ہو اور عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔‘

آرٹیکل 63 (2) کے مطابق ’اگر کوئی سوال اٹھے کہ آیا مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا کوئی رکن، رکن رہنے کے لیے نااہل ہوگیا ہے تو اسپیکر، یا جیسی بھی صورت ہو چیئرمین، تا وقتیکہ وہ فیصلہ کرے کہ مذکورہ کوئی سوال پیدا نہیں ہوا، اس سوال کو مذکورہ سوال پیدا ہونے سے 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو بھیجے گا اور اگر وہ مذکورہ بالا مدت میں ایسا کرنے میں ناکام ہوجائے تو اس کو الیکشن کمیشن کو ارسال کردہ متصور کیا جائے گا۔‘

اسی طرح آرٹیکل 63 (3) میں کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن اس سوال کا اس کی وصولی سے یا اس کو وصول کیا گیا متصور ہونے کے 90 روز کے اندر فیصلہ کرے گا اور اگر اس کی یہ رائے ہو کہ رکن نااہل ہوگیا ہے تو، وہ رکن نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہوجائے گی۔‘

خیال رہے کہ گزشتہ روز عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس

ممنوعہ فنڈنگ کیس، جسے پہلے غیر ملکی فنڈنگ کیس کہا جاتا تھا، وہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کیا تھا اور یہ 14 نومبر 2014 سے زیر التوا تھا۔

اکبر ایس بابر اب جو کہ اب پی ٹی آئی سے وابستہ نہیں ہیں انہوں نے پاکستان اور بیرون ملک سے پارٹی کی فنڈنگ میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا۔

تاہم پی ٹی آئی نے ایسے کسی غلط عمل کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے نہیں ہوئی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس: ای سی پی کا خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا حکم

مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کی فنانسنگ کا جائزہ لینے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس کمیٹی نے 95 سماعتوں اور تقریباً چار سال بعد رواں سال 4 جنوری کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے طلب کیے گئے ریکارڈ کی آٹھ جلدوں پر مبنی رپورٹ میں نشاندہی ہوئی کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے غیر ملکیوں سے بغیر کسی ذرائع اور تفصیلات کے لاکھوں ڈالر اور اربوں روپے اکٹھے کرنے کی اجازت دے کر فنڈنگ قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کیں کیونکہ ممنوعہ فنڈنگ کرنے میں بھارتی اور اسرائیلی شہری بھی شامل تھے۔

رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ حاصل کی جبکہ فنڈز اور اپنے درجنوں بینک اکاؤنٹس چھپائے۔

رپورٹ میں پارٹی کی جانب سے ٹرانزیکشنز کی تفصیلات بتانے سے انکار اور پی ٹی آئی کے غیر ملکی اکاؤنٹس اور بیرون ملک جمع کیے گئے فنڈز کی تفصیلات حاصل کرنے میں پینل کی بے بسی کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی کو صرف فنڈز ضبط ہونے کا خطرہ

کمیٹی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوال اٹھایا گیا جس میں پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔

رپورٹ کے مطابق پارٹی نے مالی سال 10-2009 اور مالی سال 13-2012 کے درمیان چار سال کی مدت کے دوران 31 کروڑ 2 لاکھ روپے کی رقم کم بتائی جبکہ سالانہ تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 5 لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم کم موصول ہوئی۔

رپورٹ میں پی ٹی آئی کے چار ملازمین کو ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں فنڈنگ وصول کرنے کی اجازت دینے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا تھا، لیکن کہا گیا کہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنا دائرہ کار سے باہر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں