افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد گروپ کے جنگجوؤں کی طرف سے چھوٹے پیمانے پر جشن منایا گیا کیونکہ افغانستان بڑھتی ہوئی غربت، خشک سالی، غذائی قلت سے نبرد آزما ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی ملک کے مستقبل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی امید بھی دھندلی ہو رہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جشن منانے کے لیے کچھ لوگوں کی جانب سے ہوائی فائرنگ کی گئی اور طالبان جنگجو جمع ہوئے، انہوں نے دارالحکومت میں اقتدار حاصل کرنے کے ایک سال کے موقع پر گروپ کا سیاہ اور سفید پرچم لہرایا۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری پر زلزلہ زدہ افغانستان کی مدد کرنے کیلئے زور

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بیان میں کہا کہ یہ دن باطل کے خلاف حق کی فتح اور افغان قوم کی آزادی اور غلامی سے نجات کا دن ہے۔

افغانستان اُس وقت سے زیادہ محفوظ ہے جب سخت گیر اسلام پسند تحریک امریکا کے زیرِ قیادت غیر ملکی افواج اور ان کے افغان اتحادیوں کے خلاف لڑ رہے تھے حالانکہ اسلامک اسٹیٹ کے ایک مقامی جتھے نے ملک میں متعدد حملے کیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی کی بہتر صورتحال، اقتصادی ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کرنے میں طالبان کو درپیش چیلنجوں پر نقاب نہیں ڈال سکتی۔

افغنستان کی معیشت پر دباؤ زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ ملک کی تنہائی ہے، غیر ملکی حکومتیں اس کے حکمرانوں کو تسلیم نہیں کر رہیں۔

افغانستان زیادہ انحصار ترقیاتی امداد پر کرتا ہے جس میں بین الاقوامی ممالک کی جانب سے کمی کر دی گئی ہے کیونکہ ان ممالک کا مطالبہ ہے کہ طالبان افغان شہریوں اور خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کا احترام کرے جن کی کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے تک رسائی کو محدود کر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: کابل ایک اور دھماکے سے گونج اٹھا، مزید 8 افراد ہلاک

طالبان کا مطالبہ ہے کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر باہر ممالک میں موجود ہیں، انہیں واپس کیا جائے لیکن اسے امریکا کے ساتھ مذاکرات میں مشکلات درپیش ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب تک دونوں ممالک اپنی پوزیشن میں بڑی تبدیلی نہیں کرتے اس وقت تک افغانستان میں قیمتوں میں اضافے، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بھوک سے نمٹنے کے لیے کوئی فوری حل نظر نہیں آرہا بلکہ موسم سرما کے شروع ہوتے ہی یہ مزید بدتر ہو جائے گا۔

افغانستان کے صوبہ غزانی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر آمینہ آریزونے کہا کہ ہم سب تاریکی اور زوال کی طرف جا رہے ہیں، افغان شہریوں، خاص طور پر خواتین کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

نصف سے زائد آبادی غریب

تقریبا ڈھائی کروڑ افغان شہری غربت کی زندگی گزار رہے ہیں جو نصف سے زائد آبادی بنتی ہے، اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق اس سال معاشی بحران کے سبب 9 لاکھ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان رہنما شیخ رحیم اللہ حقانی بم دھماکے میں جاں بحق

صوبہ ہرات میں رہائش پذیر فاطمہ نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن لڑکیوں کے اسکول بند ہونے اور خواتین کے لیے ملازمت کے مواقعوں کی کمی کے سبب مایوسی ہے۔

صوبہ ہلمند سے کے جاوید کے مطابق طالبان کے 20 سال بعد اقتدار میں آنے کے بعد سے سیکیورٹی میں ڈرامائی طور پر بہتری آئی ہے لیکن ساتھ ہی مہنگائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے حالیہ جائزے میں کہا کہ یہ گروپ صحافیوں، کارکنوں اور مظاہرین کو گرفتار کر کے اپنے ناقدین میں کمی کررہا ہے۔

طالبان کے ترجمان نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں من مانی گرفتاریوں کی اجازت نہیں ہے۔

متعدد آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ کس طرح شریعت کے قانونی اور اخلاقی اسلامی ضابطہ کی تشریح کی جائے گی اور عملی طور پر اس کا نافذ کس طرح کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: القاعدہ، داعش افغانستان میں قدم جما رہے ہیں، اقوام متحدہ

افغانستان کے آئینی ماہر اور سابق حکومتی مشیر زلمے نشاط نے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ قانون میں یکسانیت نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں