دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، وزیر اعظم شہباز شریف

اپ ڈیٹ 16 اگست 2022
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں حکومت کو 'آئینی عمل' کے ذریعے تبدیل کیا گیا — فائل فوٹو
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں حکومت کو 'آئینی عمل' کے ذریعے تبدیل کیا گیا — فائل فوٹو

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر 'سرد جنگ یا بلاک کی سیاست' میں واپس جانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے غیر ملکی جریدے ’نیوز ویک’ کے فارن پالیسی کے سینئر تجزیہ کار ٹام او کونر کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے، اسلام آباد کے ساتھ چین، امریکا اور دیگر دوست ممالک کے تعلقات پر روشنی ڈالی۔

امریکا اور چین کے درمیان تنازع

امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ پاک-چین تعلقات بہت خاص ہیں، پاکستان اور امریکا نے دیرینہ تاریخی اور دوطرفہ تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہے، جو باہمی دلچسپی کے تمام امور کا احاطہ کرتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات سے خطے میں امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ ترقی اور رابطہ کاری کو فروغ مل سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ امن اور استحکام کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ منسلک رہنے کے متمنی ہیں، ’دنیا میں کہیں بھی تنازعات کے عالمی سطح پر نتائج ہوتے ہیں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے’۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی تھنک ٹینک کا بائیڈن پر شہباز شریف سے ملاقات پر زور

وزیر اعظم نے کہا کہ 'دنیا سرد جنگ یا بلاک کی سیاست کے ایک اور دور میں جانے کی گنجائش نہیں رکھتی، میرا ماننا ہے کہ کووڈ 19 جیسے وبائی امراض اور یوکرین کے بحران سے متاثرہ عالمی معیشت کے لیے کشیدگی کے سنگین نتائج پیدا ہوں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پہلے ہی اپنی سماجی اور اقتصادی بہبود کے لیے بیرونی اثرات سے دوچار ہیں، اس لیے ایسے ممالک نہیں چاہتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی آپسی دشمی سے ان چیلنجز میں اضافہ ہو'۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’تصادم نہیں بلکہ تعاون بین الاقوامی تعلقات کا بنیادی محرک ہونا چاہیے’۔

ایک سوال پر کہ کیا پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی 'دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی' پر مبنی ہے۔

مزید پڑھیں: چین کا امریکا پر دوطرفہ تعلقات میں ‘تعطل’ پیدا کرنے کا الزام

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 'اگر چین اور امریکا چاہیں تو پاکستان دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے گا، جیسا کہ ہم ماضی میں کر چکے ہیں'۔

افغانستان

افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ طویل تنازعات سے گریز، محفوظ انخلا یقینی بنانے، تارکین وطن کی آمد کو منظم کرنا اور انسانی امداد کو یقینی بنانے سمیت عالمی برادری کے خدشات پر نسبتاً تسلی بخش انداز میں نمٹا گیا۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ جڑے رہیں، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں مدد کریں اور ملک کے منجمد مالیاتی اثاثیں بحال کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم عبوری افغان حکومت کو ان کے وعدوں پر عمل کرنے پر زور دیتے رہیں گے، جن میں شمولیت سے متعلق تمام افغانوں کے انسانی حقوق کا احترام، بشمول لڑکیوں کی تعلیم، اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں شامل ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے حالات پر غور کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، شہباز شریف

پاکستان میں دہشت گردی

انٹرویو کے دوران وزیر اعظم سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی پوچھا گیا، جن میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔

اس حوالے سے جواب دیتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ریاستی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے، جس کی منصوبہ بندی اور مالی معاونت دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب کی گئی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ چینی شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے حملوں کے لیے ’پاک-چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے خلاف دشمن قوتوں کی مدد سے حوصلہ افزائی کی گئی’۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی قوتیں پاکستان کے چند حصوں خاص طور پر بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔

قومی یکجہتی کا عزم

قومی یکجہتی کے منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ پاکستان میں حکومت 'آئینی عمل' کے ذریعے تبدیل کی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں ایک حکومت کا حصہ ہیں جنہوں نے 70 فیصد رائے دہندگان کی نمائندگی کی، جس سے موجودہ حکومت حقیقت میں ’قومی نوعیت’ کی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ’ہماری حکومت، اقتصادی اصلاحات اور استحکام کے متفقہ قومی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے جو اس وقت اولین ترجیح ہے، ہم اپنے باہمی مفادات کی بنیاد پر دوست ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے کے علاوہ گورننس کو مؤثر طریقے سے نبھانے پر توجہ دے رہے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں، انہیں اپنے طریقے بہتر بنانے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سیاسی نظام کو تب ہی مضبوط کیا جاسکتا ہے جب بڑے پیمانے پر شہریوں کی حمایت حاصل ہو، جو کہ مؤثر عوامی خدمات کی فراہمی کے ذریعے ممکن ہے، صرف دفتر میں اچھی کارکردگی پبلک آفس ہولڈرز کو کامیاب نہیں بنا سکتی'۔

مزید پڑھیں: اتحادی حکومت قبل از وقت انتخابات نہ کروانے کے مؤقف پر قائم

وزیر اعظم نے تمام فریقین سے ’ان اصولوں پر اتفاق کرنے کا مطالبہ کیا جن میں لوگوں کی فلاح و بہبود سب سے اہم ہے’۔

انہوں نے کہا کہ 'انتظامی مسائل تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی شرکت اور مشاورت کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں، اس کام میں وقت لگ سکتا ہے لیکن یہ نظام کو مضبوط، لچکدار اور مؤثر بنانے کا واحد راستہ ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں