دہشت گردی کا مقدمہ، عمران خان کی 3 روزہ حفاظتی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 22 اگست 2022
چیئرمین پی ٹی آئی نے بابر اعوان، فیصل چوہدری کے توسط سے درخواست دائر کی — فوٹو بشکریہ فیس بُک/ عمران خان
چیئرمین پی ٹی آئی نے بابر اعوان، فیصل چوہدری کے توسط سے درخواست دائر کی — فوٹو بشکریہ فیس بُک/ عمران خان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی دہشت گردی کے مقدمے میں 3 روز کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔

گرفتاری کے خدشات کے پیش نظر سابق وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی کے مقدمہ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم کے خلاف اعلیٰ سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ درخواست پر اعتراض کیا ہے؟ جس پر بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کو متعلقہ عدالت سے رجوع کا اعتراض عائد کیا گیا ہے، عمران خان کے گھر کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے، عمران خان متعلقہ عدالت سے بھی رجوع نہیں کرسکتے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ بائیومیٹرک کا بھی اعتراض عائد کیا گیا ہے، بابر اعوان نے جواب دیا کہ یہ عدالت ہمیں حفاظتی ضمانت دے تو متعلقہ عدالت سے رجوع کر لیں، اگر عدالت قبل از گرفتاری ضمانت کا اختیار استعمال کرنا چاہے تو وہ آپ کا اختیار ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نہیں، ابھی تو متعلقہ فورم انسداد دہشت گردی عدالت ہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات تک عمران خان کو گرفتار کرنے سے روکتے ہوئے ان کی 3 روزہ حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا عمران خان کو جمعرات تک متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ 4 دن کی حفاظتی ضمانت دی جائے جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کہ کیا آپ کو لاہور یا کراچی جانا ہے؟

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ تین دن کا وقت بہت کم ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ میں اسپیشل جج تعینات کر کے ایک گھنٹے میں متعلقہ عدالت جانے کا آرڈر کردوں گا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل

قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی نے وکیل بابر اعوان اور فیصل چوہدری کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔

سابق وزیر اعظم کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔

سابق وزیراعظم کی جانب سے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ عدالت جب کہے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کو تیار ہوں، ماضی میں میرا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے، نہ ہی کبھی کسی مقدمے میں مجھے سزا ہوئی ہے، میرا فرار ہونے یا میری جانب سے پراسیکوشن کے شواہد خراب کرنے کا امکان تک نہیں ہے۔

درخواست میں عمران خان نے کہا کہ میں ضمانتی مچلکے جمع کرانے کو تیار ہوں، حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا بیان قابل مواخذہ ہے، مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں، رانا ثنااللہ

چیئرمین پی ٹی آئی کی دائر کردہ حفاظتی ضمانت کی درخواست پر رجسٹرار آفس اسلام آباد نے اعتراضات عائد کردیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے عمران خان کی درخواست پر 3 اعتراضات عائد کیے تھے۔

ذرائع رجسٹرار آفس کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کرایا۔

ذرائع رجسٹرار آفس کے مطابق یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں جانے کے بجائے ہائی کورٹ کیسے آگئے؟

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد پولیس نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے، شیریں مزاری کا دعویٰ

درخواست میں تیسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے مقدمے کی مصدقہ نقل فراہم نہیں کی گئی۔

بعد ازاں درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے اسے آج ہی سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مرگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی 'دھمکیوں' پر اسلام آباد پولیس کا ردِعمل، کارروائی کا عندیہ

ایف آئی آر میں مجسٹریٹ علی جاوید نے شکایت کی کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں آئی جی اسلام آباد پولیس، ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کو دھمکیاں دیں اور ان پر مقدمہ درج کرنے کو کہا، عمران خان کے ان الفاظ اور تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو دہشت زدہ کرنا تھا تاکہ پولیس افسران اور عدلیہ اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہ کرسکیں۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل عمران خان نے آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد، خاتون مجسٹریٹ اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ جو ظلم کرتا ہے وہ کہتا ہے ہمیں پیچھے سے حکم آیا۔

مزید پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ، آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس کریں گے، عمران خان

اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ شہباز گل کو جس طرح اٹھایا اور دو دن جو تشدد کیا، اس طرح رکھا جیسا ملک کا کوئی بڑا غدار پکڑا ہو، آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو ہم نے نہیں چھوڑنا، ہم نے آپ کے اوپر کیس کرنا ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہیے کہ ایک آدمی کو تشدد کیا، کمزور آدمی ملا اسی کو آپ نے یہ کرنا تھا، فضل الرحمٰن سے جان جاتی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ عمران خان کی تقریر کے دوران دیا جانے والا بیان قابل مواخذہ ہے اور ان کے خلاف علیحدہ مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران وزیر داخلہ کی جانب سے عمران خان کی ایف نائن اسلام آباد میں کی جانے والی تقریر کی ویڈیو بھی چلائی گئی جس میں عمران خان نے ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کے خلاف ایکشن لینے اور مقدمہ کرنے کی تنبیہ کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کل عمران خان کی تقریر کے دوران دیا جانے والا بیان قابل مواخذہ ہے، اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے، میری وزارت نے اس بارے میں رپورٹ تیار کی ہے کہ آیا ان کا یہ بیان ان کے گزشتہ دونوں بیانیوں کا تسلسل ہے اور کیا اس تقریر کو بھی اس مقدمے کا حصہ بنا کر عمران خان کو گرفتار کیا جائے یا انہیں اس مقدمے میں بطور ملزم نامزد کیا جائے یا پھر اس پر علیحدہ سے ایک مقدمہ درج کیا جائے۔

بعد ازاں، انہوں نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مجسٹریٹ اور پولیس افسران کو دھمکیاں دینے پر عمران نیازی کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایسی حرکتیں معاشرے میں انتہا پسندی کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں، عمران خان کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ملک میں اس وقت عملی طور پر مارشل لا نافذ ہے، فواد چوہدری

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں مریم نواز سمیت دیگر رہنماؤں نے اس طرح کے سنگین بیانات دیے کہ ہم ججز کے بچوں کو نہیں چھوڑیں گے، ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ حکمرانوں نے میڈیا کے خلاف تاریخ کی بد ترین سنسرشپ نافذ کی گئی ہے، کچھ میڈیا اداروں کے ساتھ مل کر جو آپریشن کیا جا رہا ہے ایسا مارشل لا میں بھی نہیں کیا گیا، ملک میں اس وقت عملی طور پر مارشل لا نافذ ہے اور اسی ضمن میں یہ ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں عدالت نے ضمانت دی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم اس مقدمے کے خلاف درخواست فائل کریں گے، یہ کیس بنتا نہیں تھا، اس کے علاوہ شہباز گل پر تشدد کی جیل حکام نے آج تصدیق کردی ہے، ان کے ریمانڈ سے متعلق حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات جس طرح سے ملک کے شہروں اور قصبوں میں نکلے ہیں، اس سے حکمران طبقے کو سمجھ آگئی ہوگی کہ اگر عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آئے گا، اس وقت بھی سڑکوں کو بند کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ اسلام آباد نہ پہنچ سکیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ چینلز کو بند کیا جارہاہے، اینکر جمیل فاروقی کو اٹھالیا گیا، سوشل میڈیا کارکنوں کو اٹھایا جارہا ہے، اس اقلیتی حکومت کی کوئی حیثت نہیں ہے، یہ ڈنڈے کے زور پر حکمرانی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس وقت ملک میں بد ترین آمریت ہے، مجھے امید ہے کہ 10 ستمبر سے قبل اس حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا اور پاکستان کا اقتدار پاکستان کے عوام کو واپس مل جائے گا۔

پی ٹی آٗئی رہنما نے کہا کہ موجودہ حکومت کی سازش یہ ہے کہ عوام کو عمران خان سے دور کیا جائے، ان کو جلسے نہ کرنے دیے جائیں، ان کو ٹی وی پر نہ آنے دیا جائے لیکن ان کے اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

پی ٹی آئی نے سیاسی انداز میں مخالفین کی دھلائی کردی، شاہ محمود قریشی

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جس طرح کے ہھتکنڈے یہ حکمران استعمال کر رہے ہیں، یہ ماضی کے حربے تھے، قوم اس سے بہت آگے جاچکے ہیں، عوام باشعور ہوچکے ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی ایک ایک چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں، قوم عمران خان کے ساتھ جڑگئی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پنجاب کے ضمنی انتخاب کے بعد کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے سیاسی انداز میں سیاسی مخالفین کی دھلائی کردی، تمام مخالفین کو شکست ہوئی، قوم فیصلہ کرچکی، اب کتنی دیر یہ لوگ اس فیصلے میں حائل رہیں گے، رکاوٹیں کھڑی کرتے رہیں گے، اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں