’قطر کے ساتھ پی آئی اے، اسلام آباد ائیر پورٹ معاہدہ روکا جائے‘، لاہور ہائیکورٹ میں استدعا

27 اگست 2022
درخواست گزار نے کہا کہ معاہدے پر دستخط کرتے وقت اس زمین کی تجارتی صلاحیت کو مدنظر رکھنا چاہیے—فوٹو : پی آئی ڈی ویب سائٹ
درخواست گزار نے کہا کہ معاہدے پر دستخط کرتے وقت اس زمین کی تجارتی صلاحیت کو مدنظر رکھنا چاہیے—فوٹو : پی آئی ڈی ویب سائٹ

وفاقی حکومت کو قطر کے ساتھ مبینہ طور پر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے 51 فیصد حصص فروخت کرنے اور قومی ایئرلائن اور اسلام آباد ائیر پورٹ کا انتظامی کنٹرول اسے سونپنے کے معاہدے سے روکنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایوی ایشن قوانین میں مہارت رکھنے والے وکیل نبیل احمد نے یہ درخواست ایک رٹ پٹیشن کے ذریعے دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ قطر کے دوران دوحہ کی جانب سے پاکستان کے ایوی ایشن سیکٹر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق قطر نے ہوائی اڈے اور ہوٹل کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور قطر اقتصادی تعلقات میں بہتری کی جانب گامزن ہیں، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت وفاقی حکومت اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے انتظامی امور قطر کے حوالے کرے گی جب کہ ایک قطری کمپنی ایئرپورٹ کی ٹرمینل اور کارگو سروسز فراہم کرے گی۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ قطری حکومت کو سرمایہ کاری کے عوض نیویارک کے مین ہیٹن میں پی آئی اے کے روزویلٹ ہوٹل کے حصص بھی دیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سرمایہ کاری پاکستان اور قطر کے درمیان بین الحکومتی معاہدوں کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور قطر کا مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ سے حاصل آمدن کے علاوہ اس کی اراضی کی مالیت تقریباً 4 کھرب روپے ہے، حکومت کو قطر کے ساتھ اس طرح کے معاہدے پر دستخط کرتے وقت اس زمین کی تجارتی صلاحیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

وکیل نے وضاحت کی کہ پی پی آر اے کے قوانین تمام مالیاتی لین دین پر لاگو ہوتے ہیں کیونکہ پی آئی اے اور پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی دونوں وفاقی حکومت کے ادارے ہیں۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے قطر کی سرمایہ کاری کے لیے غیر قانونی معاہدے سے قبل پارلیمنٹ سے منظوری حاصل نہیں کی جب کہ پی آئی اے کو پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے پی آئی اے کنورژن ایکٹ 2016 کے ذریعے پبلک لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کا پاکستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے اس طرح کے کسی بھی غیر قانونی معاہدے اور فروخت کے لیے متعلقہ قانون میں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کی منظوری لازمی ہے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کی جانب سے پی آئی اے کے حصص کی فروخت اور اسلام آباد ایئرپورٹ کا انتظامی کنٹرول قطر کے حوالے کرنے سے متعلق معاہدوں کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں