آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کو قرض جاری کرنے کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 30 اگست 2022
آئی ایم ایف سے پاکستان نے 2019 میں معاہدہ کیا تھا— فائل فوٹو: رائٹر
آئی ایم ایف سے پاکستان نے 2019 میں معاہدہ کیا تھا— فائل فوٹو: رائٹر

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے بورڈ نے قرض بحالی پروگرام کی منظوری دے دی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ الحمداللہ آئی ایم ایف کے بورڈ نے ہمارے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی بحالی کی منظوری دے دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں اب عالمی مالیاتی ادارے سے ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی ساتویں اور آٹھویں قسط ملنی چاہیے’۔

مفتاح اسمٰعیل کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے متعدد سخت فیصلے کیے اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا’۔

‘بھارت کے علاوہ تمام ممالک نے ہمیں ووٹ دیا’

بعد ازاں، مفتاح اسمٰعیل نے جیو نیوز کے پروگرام ‘آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج آئی ایم ایف سے پاکستان کا قرض پروگرام منظور ہوا ہے، دنیا کے تمام ممالک نے ہمارے حق میں ووٹ دیا ہے، صرف بھارت نے ہمیں ووٹ نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ہر شخص چاہتا تھا کہ یہ پروگرام ہو جائے لیکن تیمور جھگڑا اور شوکت ترین دوسری طرف کھڑے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف بورڈ اجلاس سے قبل بھاری ریگولیٹری ڈیوٹی عائد نہ کرنے کی تجویز

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو پروگرام میں نے کیا ہے اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو بتائیے، مفتاح اسمٰعیل کہتا ہے کہ 153 ارب روپے کا پرائمری سرپلس دوں گا، اگر آپ کے خیال میں وہ ٹھیک ہے یا غلط تو بتائیں، یہ عام سیاست ہے، اس پر بحث کریں۔

اسد عمر کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام دیر سے بحال ہونے سے متعلق کے گئے بیان کے حوالے سے سوال پر مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اسد عمر 9 مہینے وزیر خزانہ رہے لیکن وہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام نہیں کرسکے، میں وزارت سنبھالنے کے دوسرے روز آئی ایم ایف سے پروگرام بحال کرنے کے لیے چلا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تمام اداروں نے میرا ساتھ دیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ہو جائے، ہم نے پروگرام کو ایک سال بڑھایا ہے اور اس سال پروگرام میں 4 ارب ڈالر کروالیے، اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے کہا کہ فنڈنگ میں 4 ارب ڈالر کا گیپ ہے تو ہم پاکستان میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے آئے، شہباز شریف اور میں قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب گئے۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو چین نے پیسے واپس لے لیے تھے، ہم لوگ وہ پیسے واپس لائے ہیں، چین نے پاکستان میں 2 ارب 50 کروڑ ڈالر جمع کروائے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اسحٰق ڈار اور نوازشریف دونوں خوش ہیں، انہوں نے کہا کہ دنیا کو پتا ہے کہ پاکستان میں سیلاب آئے ہوئے ہیں اور آدھا پاکستان ڈوبا ہوا ہے، پاکستان کے غریب ترین لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں، عرب ممالک اور یورپی ممالک سمیت دیگر ممالک ہمیں امداد دے رہے ہیں، کل ہم اپیل کریں گے جس سے کم از کم 16 کروڑ ڈالر آئیں گے۔

‘آئی ایم ایف پروگرام میں نرمی ہوگی’

مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے آج پاکستانیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں نرمی ہوگی، اس میں جو چیزیں غریبوں اور سیلاب متاثرین کے لیے کریں گے، یہ نہیں ہے کہ مفتاح اسمٰعیل جاکر فرٹیلائزر کمپنیوں کو بریک دے دے، وہ غریب جس کا گھر ٹوٹا ہے، ہم اس کی مدد تو کریں گے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے ساتھ معاہدے کیلئے درکار اسٹاف رپورٹس آئی ایم ایف بورڈ کو موصول

انہوں نے کہا کہ جو مسائل آئیں گے ہم ان سے نمٹیں گے اور آئی ایم ایف سے بھی بات کریں گے کہ بھائی یہ مسئلہ آگیا ہے، خدانخواستہ کپاس کی فصل خراب ہوگئی یا اگر گندم کی فصل کم ہوگی تو ہم گندم کی درآمد کرنا شروع کر رہے ہیں، ہم نے 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کر لی ہے، ہم 30 سے 40 لاکھ ٹن گندم درآمد کر لیں گے۔

مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی ذمہ داری ہے کہ 23 کروڑ لوگوں کے پاس روٹی ہو، دالیں اور سبزیاں بھی درآمد کرلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے آج مرکزی بینک کے گورنر سے بات کی کہ چادر دیکھ کر پیر پھیلانے ہیں، اگر برآمدات اور ترسیلات زر 5.2 ارب ڈالر کی ہیں تو درآمدات بھی اتنی ہی ہوں لیکن اگر سیلاب کی غیر معمولی صورت حال ہوئی تو اس کو دیکھ لیں گے۔

‘بھارت سے ہمیں سبزیاں درآمد کر لینی چاہئیں’

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی زیادہ ہے، اس کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھارت سے زمینی راستے سے سبزیاں درآمد کر لینی چاہئیں، اس کے علاوہ ایران اور ترکیہ سے بھی درآمدات کریں گے، کل رات سے یہ کام شروع ہو گیا ہے، ایک اور دو دن میں ہم یہ سمری منظور کر لیں گے۔

خیال رہے کہ 22 اگست کو ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سفارتی اور آئی ایم ایف ذرائع نے کہا ہے کہ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان معاہدہ طے پانے کے نزدیک پہنچ گیا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے تمام 24 ارکان کو اس معاہدے کی تکمیل کے لیے درکار اسٹاف رپورٹ کی کاپیاں موصول ہوگئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے پیٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر تک کرنے، مزید ٹیکس لگانے کا وعدہ

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف بورڈ ارکان میں تقسیم کی گئی دستاویزات میں پاکستان کی جانب سے ایک لیٹر آف انٹینٹ بھی شامل تھا، جس میں معیشت میں اصلاحات کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے منصوبوں کا ذکر کیا گیا تھا۔

پاکستان نے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں پر مفاہمت کی ایک یادداشت بھی پیش کی تھی، اس کے ساتھ آئی ایم ایف ٹیم کی جانب سے ایک تکنیکی میمورینڈم بھی پیش کیا گیا تھا۔

آئی ایم ایف عملے کے میمورینڈم میں بورڈ کے لیے تیار کردہ مطالعات اور رپورٹس شامل تھیں جو کہ آرٹیکل 4 سے متعلق مشاورت، منتخب مسائل پر مقالے، شماریاتی ضمیمے اور پالیسی پیپرز پر مشتمل تھیں۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے 13 جولائی کو اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ ایک اسٹاف لیول معاہدہ کیا ہے تاکہ اس کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے جائزے کو آگے بڑھایا جاسکے جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی جانب سے مجموعی طور پر 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔

بتایا گیا تھا کہ یہ معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری سے مشروط ہے، 29 اگست کے اجلاس کے بعد پاکستان کو فوری طور پر تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مل سکتے ہیں جس سے ملک کی کرنسی اور ذخائر پر دباؤ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، علاوہ ازیں آئی ایم ایف کا قرض دیگر دو طرفہ ذرائع اور قرض دہندگان سے مزید مالی اعانت کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو قرض کی تجدید کیلئے آئی ایم ایف کا اہم اجلاس آج ہوگا

13 جولائی کے معاہدے میں نشاندہی کی گئی تھی کہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے فوری ترجیح 2023 کے بجٹ کا مستقل نفاذ ہے۔

اس معاہدے میں مارکیٹ سے طے شدہ شرح مبادلہ اور ایک فعال اور مؤثر مالیاتی پالیسی کی مسلسل پابندی کی تجویز بھی دی گئی تھی۔

علاوہ ازیں اس میں ریاستی ملکیتی اداروں اور گورننس بہتر بنانے سمیت اصلاحات کے تحفظ اور اس میں تیزی لانے کے لیے سماجی تحفظ کو بڑھانے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ آر ایف آئی کے تحت ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے ملک کے معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے اپریل 2020 کو پاکستان کو ایک ارب 38 لاکھ 6 ہزار ڈالر کی منظوری دی گئی تھی۔

امریکی اخبار ‘دی وال اسٹریٹ جرنل’ نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان کی جانب سے 37 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضے اور سرمایہ کاری کے معاہدے کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان، سری لنکا جیسے معاشی بحران سے محفوظ ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: درآمدات میں اضافے کے باعث ملک کا تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

وائس آف امریکا نے رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران چین، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات سے قرضے، فنانسنگ، تیل کی ادائیگی اور سرمایہ کاری کے لیے تقریباً 12 ارب ڈالر کا قرضے کا وعدہ لیا گیا، لیکن قرض کی یہ رقم آئی ایم ایف بورڈ اجلاس کی جانب سے پیکج کی منظوری کے بعد ہی دستیاب ہوگی۔

وائس آف امریکا نے بتایا تھا کہ ماہرین کے مطابق پاکستان کی معیشت وسیع اور گہری ہے، ملک کی جغرافیائی اہمیت ایک خاص درجہ رکھتی ہے، جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے۔

امریکا کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا کے پروگرامز کی ڈائریکٹر تمنا سالک الدین نے وائس آف امریکا کو بتایا تھا کہ کئی اختلافات کے باوجود افغانستان جیسے معاشی بحران سے بچنے کے لیے امریکا، آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو قرض دینے کی حمایت کرتا ہے۔

روپے کی مسلسل گراوٹ

یاد رہے کہ ملک کے تجارتی خسارے، بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کے باعث روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں 28 جولائی کو کم ترین سطح 239.94 روپے پر آ گئی تھی۔

تاہم 16 اگست کو روپے کی قدر بحال ہو کر 213.90 روپے ہو گئی تھی، اس کے بعد پاکستانی کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری رہا اور آج اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق انٹربینک میں مقامی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 221.92 روپے پر بند ہوئی۔

تجارتی خسارہ

3 جولائی کو ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تجارتی خسارہ ایک سال پہلے کے 30 ارب 96 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں 48 ارب 66 کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، جو 57 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔

درآمدی بل میں اضافہ

مالی سال 22-2021 کے دوران درآمدی بل 43.45 فیصد بڑھ کر 80 ارب 51 کروڑ ڈالر ہوگیا جو ایک سال قبل 56 ارب 12 کروڑ ڈالر تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں