جانوروں کی عالمی فلاحی تنظیم نے کہا ہے کہ پولیس نے مشرقی چین میں ذبح کرنے کے لیے رکھی گئیں 150 بلیاں اور ان کے خوراک کے لیے استعمال ہونے والی چڑیوں کو تحویل میں لے لیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ہیومن سوسائٹی انٹرنیشل نے ایک بیان میں کہا کہ چین کے صوبے شیڈونگ کے مشرقی شہر جنان میں پولیس نے جب بلیوں کو زنگ زدہ پنجروں سے برآمد کرلیا، جہاں بلیوں کو قید کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کتے، بلیاں اور بطخیں بھی کورونا کا شکار بن سکتی ہیں، تحقیق

جانوروں کے حقوق کے مقامی گروپ وی شائن کے ایک رکن نے بتایا کہ ایک گروہ نے چڑیوں کو پنجروں میں چارہ کے طور پر رکھا اور ہر بلی کے داخل ہوتے ہی بند کرنے کے لیے ریموٹ کنٹرول کا استعمال کیا۔

ہیومن سوسائٹی انٹرنیشل کے مطابق ہوانگ نامی ایک کارکن نے بتایا کہ بلیاں جس حالت میں تھیں دیکھ کر حیرانی ہوئی، ان میں سے بہت سی بے چین اور چیخ رہی تھیں‘۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ بلیوں کو لالچ دینے کے لیے چارے کے طور پر استعمال ہونے والی درجنوں چڑیوں کو آزاد کرنا بھی ہمارے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بچائی گئیں بلیوں میں سے زیادہ تر پالتو تھیں اور انہیں مقامی جانوروں کی پناہ گاہوں میں بھیجا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کارکنان کوجائے وقوع پرچین میں ایک محفوظ نسل کی 31 چڑیاں بھی ملی اور انہیں واپس جنگل میں چھوڑ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیویارک میں پہلی بار دو پالتو بلیوں میں کورونا کی تشخیص

مزید بتایا گیا کہ چین میں جانوروں پر ظلم کی روک تھام کا کوئی قانون نہیں ہے، لیکن مشتبہ افراد کو پرندوں کے شکار، املاک کی چوری اور جانوروں کی وبا سے بچاؤ کے قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ہیومن سوسائٹی انٹرنیشل کے مطابق چین میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ کتے اور 40 لاکھ بلیاں انسانی استعمال کے لیے ماری جاتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق چین کے کئی علاقوں میں کتے اور بلی کے گوشت کو ایک لذیذ کھانا سمجھا جاتا ہے اور ان کے گوشت کی تجارت کافی منافع بخش رہتی ہے تاکہ جرائم پیشہ گروہوں کو پالتو جانور چرانے پر اکسایا جا سکے حالانکہ پالتو جانوروں میں اضافے کے بعد اس عادت میں مسلسل کمی دیکھی گئی ہے۔

چین میں ہر سال جون میں، جنوبی چین کے شہر یولن میں کتوں کے گوشت کے میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں زندہ کتے اور بلیوں کو کھانے کے لیے فروخت کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: پالتو بلی میں بھی کوورنا وائرس کا کیس سامنے آگیا

غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق جنوبی چین کے گوانگ ڈونگ اور گوانگسی صوبوں میں کتے اور بلیاں کھانے کی روایت ہزاروں سال پرانی ہے۔

ہیومن سوسائٹی انٹرنیشل چائنا پالیسی کے ماہر ڈاکٹر پیٹر لی نے ایک بیان میں کہا کہ چین کے یہ دو علاقے بلی کا گوشت کھانے والے ہاٹ اسپاٹ ہیں جبکہ چین کے دیگر علاقوں میں بلی کا گوشت کھانا بالکل بھی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے سے بلی اور کتے کے گوشت کے استعمال میں مزید کمی واقع ہوئی ہے جیسا کہ یہ بیماری وسطی شہر ووہان میں کھانے کے لیے زندہ جانور فروخت ہونے والے بازار سے جوڑ دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: کیا کتے سونگھ کر کورونا وائرس کے بارے میں بتاسکتے ہیں؟

چین نے 2020 میں جنگلی حیات کے استعمال اور تجارت پر پابندی عائد کی تھی۔

گوانگ ڈونگ کے شہروں شینزین اور زوہائی نے اسی سال اپریل میں کتوں اور بلیوں کے کھانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں