اسلام آباد ہائیکورٹ: شہباز گل کی درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2022
اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی —فائل فوٹو: ڈان نیوز
اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی —فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل نے اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا جہاں درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پیر کو شہباز گل کی درخواست ضمانت پر سماعت کریں گے۔

مزید پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل کی درخواست ضمانت خارج

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی جانب سے دائر درخواست میں ایس ایچ او کوہسار، سٹی مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 9 اگست کو تھانہ کوہسار پولیس نے گرفتار کیا، درخواست گزار سابق وزیراعظم عمران خان کا چیف آف اسٹاف افسر ہے۔

درخواست میں بتایا گیا کہ 17 اگست کو پمز کے سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ نے معائنہ کیا، اڈیالہ جیل اور پمز کے میڈیکل بورڈ کے مطابق درخواست گزار پر تشدد کے شواہد ملے۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت کیس کے حتمی فیصلے تک ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کی درخواست ضمانت سماعت کے لیے مقرر کردی اور چیف جسٹس اطہرمن اللہ پیر کو سماعت کریں گے۔

خیال رہے کہ 6 اگست کو اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل کی درخواست ضمانت خارج کردی تھی۔

شہباز گل کو نجی نیوز چینل ‘اے آر وائی’ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لے کر ان کے خلاف تھانہ کوہسار پولیس نے سٹی مجسٹریٹ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا۔

بعد ازاں شہباز گل نے وکیل فیصل چوہدری اور دیگر پر مشتمل قانونی ٹیم کے توسط سے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کی درخواستِ ضمانت پر سماعت پیر تک ملتوی

درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ میرے خلاف مقدمہ بدنیتی اور سیاسی عناد کی بنیاد پر بنایا گیا، میرے بیان کے کچھ حصے توڑ مروڑ کر ایف آئی آر میں شامل کیے گئے ہیں۔

شہباز گِل کے خلاف مقدمہ

شہباز گِل کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، 109 (اکسانے)، 120 (قید کے قابل جرم کے ارتکاب کے لیے ڈیزائن چھپانے)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 124 اے(بغاوت) 131 (بغاوت پر اکسانا، یا کسی فوجی، بحری یا فضائیہ کو اپنی ڈیوٹی سے بہکانے کی کوشش کرنا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

شہباز گل کی گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد کچہری نے انہیں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا، دو دن بعد رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل نے درخواست ضمانت دائر کردی

پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، اسے بھی ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دیا تھا۔

16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو اسے اسی دن سننے کا حکم دیا تھا۔

17 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی تھی اور شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

19 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست معطل کرتے ہوئے انہیں پمز ہسپتال بھیج دیا تھا، 22 اگست کو ان کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔

شہباز گل کا متنازع بیان

9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل اڈیالہ جیل سے پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں