’پانی اس وقت سر پر آن پہنچا، جب سب بستروں پر گہری نیند سورہے تھے‘

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2022
مصری جمالی نے بتایا کہ وہ اپنے گاؤں سے ٹکرانے والی اس شدید تباہی کے لیے تیار نہیں تھے—فوٹو : اے ایف پی
مصری جمالی نے بتایا کہ وہ اپنے گاؤں سے ٹکرانے والی اس شدید تباہی کے لیے تیار نہیں تھے—فوٹو : اے ایف پی

بلوچستان کے علاقے نصیر آباد ڈویژن میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران کم از کم 4 بڑے سیلاب آچکے ہیں، جعفرآباد، نصیر آباد، جھل مگسی اور کچھی اضلاع پر مشتمل یہ علاقہ صوبے کی ’گرین بیلٹ' سمجھا جاتا ہے جہاں زیادہ تر رہائشی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ضلع جعفرآباد کے چھوٹے سے گاؤں چوکی جمالی میں سیلاب کے سبب بے گھر ہونے والے مصری جمالی نے بتایا کہ وہ اس علاقے میں 3 بڑے سیلاب دیکھ چکے ہیں جبکہ اس علاقے میں آنے والا چوتھا سیلاب ان کے گھر تک نہیں پہنچ سکا تھا تاہم اس بار حالات بہت بدتر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’سیلاب نے مجھ سے اور آس پاس کے سبھی لوگوں سے سب کچھ چھین لیا، زرعی زمین، مٹی کے گھر، مویشی، اناج کا ذخیرہ، یہاں تک کہ وہ چھوٹی دکان بھی جو میری ملکیت تھیں اب ختم ہوگئی ہیں‘۔

سیلاب متاثرین کے کیمپ میں موجود 8 بچوں کے والد مصری جمالی نے مزید بتایا کہ وہ اپنے گاؤں سے ٹکرانے والی اس شدید تباہی کے لیے تیار نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، مزید 12 افراد جاں بحق

انہوں نے کہا کہ ’2010 سے لے کر اب تک ہر سیلاب نے تباہی مچائی ہے، ہم سیلاب کی تباہ کاریوں سے ناواقف نہیں ہیں لیکن اس بار ہم نے سوچا کہ پانی کم ہوگا، ہم نے سوچا تھا کہ اس کے آنے میں ابھی وقت ہے لیکن پانی اس وقت سر پر آن پہنچا جب ہمارا خاندان اپنے بستروں پر گہری نیند سو رہا تھا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ‘اس وقت بارش ہو رہی تھی، ہم نے جانے سے پہلے صبح تک انتظار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ہمارا یہ فیصلہ غلط تھا، ہمارے گاؤں اور قصبے کے دیگر تمام حصوں میں ہر طرف پانی ہی پانی جمع ہوگیا، ہم صرف اپنے اہل خانہ کو بچانے میں کامیاب رہے اور کوئی بھی مال نہ بچا سکے‘۔

لیکن مصری جمالی کے برعکس ارباب جمالی اتنے خوش قسمت نہیں تھے، ان کا تعلق سندھ کی سرحد سے متصل ضلع جعفرآباد کی تحصیل گندکھا سے ہے۔

سندھ کے راستے گندکھا کو پانی فراہم کرنے والی کیرتھر کینال طوفانی بارشوں اور سیلاب کی آمد سے پہلے ہی سوکھ گئی تھی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان سیلاب میں پھنسے افراد کی حکومت سے مدد کی اپیل

مقامی لوگوں کے مطابق 2007 کے سیلاب کے بعد سے نہر میں جمع مٹی کے ڈھیر کو صاف نہیں کیا گیا، ان کا ماننا ہے کہ یہ گندکھا کے اب تک خشک سالی کا شکار رہنے کی وجوہات میں سے ایک ہے۔

طوفانی بارشوں اور سیلاب نے اس چھوٹی سی بستی میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کی جان لے لی، جس سے علاقہ مکینوں میں صدمے کی لہر دوڑ گئی۔

محمد ارباب جمالی اسی بدقسمت خاندان کے سربراہ ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ’میری بیوی شازیہ جو 20 سال کی تھی، 8 ماہ کی فرح، 2 ماہ کی شیلا، 4 ماہ کی شکیلا اور میرا اسکول جانے والا بھائی اظہر علی بھی جاں بحق ہوگئے لیکن میں اس وقت وہاں موجود نہیں تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کمرے کی چھت کو نقصان پہنچا ہے کیونکہ 3 روز سے بارش ہو رہی تھی، مٹی سے بنی چھت کو بارشوں سے نقصان پہنچا اور وہ بچوں پر گر گئی‘۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، کوئٹہ کا ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع

وہ لوگ جنہوں نے اب تک اپنی زمینوں کو نہیں چھوڑا ان کے لیے اس علاقے میں اب بھی موبائل سروس، بجلی اور پینے کا صاف پانی نہیں ہے، اسی قصبے سے تعلق رکھنے والے محبوب جمالی بتاتے ہیں کہ ’روز مرہ استعمال کی اشیا جیسے آٹا، چاول اور پینے کے پانی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں‘۔

اگرچہ بارشیں اب تھم چکی ہیں اور وہاں کئی ہفتوں سے سورج چمک رہا ہے لیکن نصیر آباد ڈویژن کی کئی سڑکیں اب بھی گزرنے کے قابل نہیں ہیں، جعفرآباد، ڈیرہ مراد جمالی اور دیگر قریبی علاقوں کے مکینوں نے سبی میں پناہ لی ہوئی ہے۔

سبی کے نوجوان ڈپٹی کمشنر منصور قاضی نے بتایا کہ ’ہم نصیر آباد کے رہائشیوں کو امدادی سامان اور کھانے پینے کی اشیا فراہم کر رہے ہیں۔

ماہر معاشیات محفوظ علی خان صوبے کے مالیاتی چیلنجز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ نصیر آباد میں فصلوں کے پکنے کا وقت تھا لیکن اب سب تباہ ہو چکا ہے‘۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ جانے کی تیاری کرنے والے محبوب جمالی نے کہا کہ ’یہاں کچھ بھی نہیں بچا‘، وہ ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جو اپنے خاندان سمیت اس بدترین تباہ کاری سے محفوظ رہے، دیگرافراد میں سے اکثر اس حوالے سے اتنے خوش قسمت ثابت نہ ہوئے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں