وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے حکم پر پاکستان پہنچنے والے بین الاقوامی مسافروں کے لیے غیر ملکی کرنسی ظاہر کرنے سے متعلق اعلامیے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے جب کہ روپے کی گرتی ہوئی قدر کے درمیان اس فیصلے کے باعث مقامی کرنسی دباؤ کا شکار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ سی اے اے نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور منی لانڈرنگ سے متعلق ایشیا پیسیفک گروپ کے وفد کے آن سائٹ دورے سے قبل فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے مطالبے کے مطابق 16 اگست کو احکامات جاری کیے تھے۔

ان دونوں عالمی اداروں کے وفد نے 2 ستمبر کو اپنا آئن سائٹ دورہ مکمل کیا۔

سی اے اے کے حکم کے مطابق تمام آنے والی بین الاقوامی پروازوں کو یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام مسافر اپنے پاس موجود غیر ملکی کرنسی کی ملکیت کو ایک پرو فارما کے ذریعے ظاہر کریں گے یہ تمام معلومات ایئر لائنز سی اے اے کو جمع کرائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سی اے اے نے بین الاقوامی پروازوں کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کردیا

اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین نے کہا کہ یہ فیصلہ اور اقدام بھی روپے پر حالیہ دباؤ کی ایک وجہ ہے۔

اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کہا کہ فارن ایکسچینج کمپنیوں نے سی اے اے کے حکم سے متعلق شکایت کی تھی، اس اقدام کے باعث آنے والے مسافر غیر ملکی کرنسی لانے سے کتراتے ہیں۔

اس کے علاوہ، وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ انہیں آئی ایم ایف پروگرام بحالی کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے اور استحکام کی توقع تھی لیکن حالیہ سیلاب نے کپاس کی فصل کو بڑے پیمانے پر تباہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل کی برآمد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کی کپاس کی درآمدات ہو گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں پیاز اور ٹماٹر کی فصل کو 20 فیصد نقصان ہوا ہے، جس کی وجہ سے ان اشیا کی درآمدات کی ضرورت ہوگی اور مارکیٹ مستقبل کی اس طرح کے امکانات رد عمل کو ظاہر کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا 4 اپریل سے پی آئی اے کی خصوصی پروازیں شروع کرنے کا اعلان

چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے کہا کہ ان کی ایجنسی کے پاس کسٹمز ایکٹ کے تحت غیر ملکی کرنسی کی اندرون ملک نقل و حمل پر پابندیاں عائد کرنے کا اختیار نہیں ہے، اس لیے وہ غیر ملکی کرنسی کو لازمی ظاہر کرنے کے بارے میں فیصلے کا حصہ نہیں ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وہ بھی سی اے اے کے اس فیصلے سے لاعلم ہیں۔

اس موقع پر، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہماری اسڈراسٹینڈنگ یہ تھی کہ سی اے اے نے پاکستان کسٹمز کی رضامندی سے سرکلر جاری کیا ہے۔

قائمہ کمیٹی کی جانب سے اس فیصلے کے نفاذ سے متعلق سوال پر وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکریٹری نے ایف اے ٹی اے سے متعلق قائم قومی سیل کے ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ پیرس میں قائم واچ ڈاگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کو ‘گرے لسٹ’ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ

اجلاس کی صدارت کرنے والے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ مسافروں کی جانب سے غیر ملکی کرنسی کو ظاہر کرنے کے فیصلے کو واپس لیا جانا چاہیے لیکن اسٹیٹ بینک کے نمائندوں کی درخواست پر انہوں نے اس مطالبے پر دباؤ نہیں ڈالا۔

تاہم، انہوں نے اصرار کیا کہ مرکزی بینک کو اس وقت ڈالر کی برآمد کی اجازت نہیں دینی چاہیے جب کہ اس وقت پاکستان میں اس کی کمی ہے۔

وفاقی وزیر سینیٹر طلحہ محمود نے بھی اس بات کی تائید کی کہ امریکی کرنسی برآمد کرنے کے فیصلے سے روپے کی قدر پر اضافی دباؤ پڑا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں