سیلاب کے پیشِ نظر 20 ارب روپے کے زرعی قرضے ایک سال کیلئے مؤخر کرنے کا اصولی فیصلہ

15 ستمبر 2022
شہباز جمیل نے بتایا کہ زرعی ترقیاتی بینک اپنے خالص منافع کا 10 فیصد سیلاب متاثرین کے لیے عطیہ کر چکا ہے—فوٹو : آئی این پی
شہباز جمیل نے بتایا کہ زرعی ترقیاتی بینک اپنے خالص منافع کا 10 فیصد سیلاب متاثرین کے لیے عطیہ کر چکا ہے—فوٹو : آئی این پی

زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ نے فصلوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے بدترین سیلاب کے پیش نظر زراعت کے شعبے سے وابستہ 57 ہزار سے زائد خاندانوں کی مدد کے لیے 20 ارب روپے تک کے زرعی قرضوں کو ایک سال کے لیے مؤخر کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صدر زرعی ترقیاتی بینک محمد شہباز جمیل نے کہا کہ بینک نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ تقریباً 4 ارب روپے کے اس سود کی فنڈنگ کے لیے کوئی راستہ تلاش کرے جو ان کسانوں پر اس مدت کے دوران واجب الادا ہو جائے گا جن کی فصلیں ڈوب چکی ہیں یا مکمل تباہ ہو چکی ہیں۔

یہ فیصلہ قرض میں ریلیف کا سبب بن سکتا ہے جسے حکومت ملک بھر کے کسانوں کو فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منظوری پر منحصر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: زرعی ترقیاتی بینک کو 3 سال سے غیر فعال رکھنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ حکومت پر برہم

ایک اندازے کے مطابق سندھ میں کپاس کی فصل کے تقریباً 65 فیصد حصے کو نقصان پہنچا، اس کے بعد پنجاب کے 15 فیصد حصے کو نقصان پہنچا، مجموعی طور پر پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق کپاس کی تقریباً 35 فیصد فصل ضائع ہوئی۔

توقع کی جا رہی ہے کہ حکومت کی جانب سے تمام بینکوں کے ذریعے تقریباً 100 ارب روپے مالیت کے زرعی قرضے مؤخر کرنے کی سہولت فراہم کی جائےگی جس کے لیے اسے سود پر سبسڈی کے عوض تقریباً 20 ارب روپے فراہم کرنے ہوں گے۔

اسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے وفاقی حکومت کو ملنے والے منافع سے ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے، آئی ایم ایف کی رضامندی سے حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کسانوں کے لیے ایک سال کا اضافہ معاف کر دے گی۔

مزید پڑھیں: زرعی قرضوں کا 81 فیصد پنجاب کے کسانوں میں تقسیم

محمد شہباز جمیل نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک کے 90 فیصد صارفین کے پاس 12.5 ایکڑ سے کم اراضی ہے اور وہ غریب ترین کسانوں میں سے ہیں، حکومت نے ایک سال (جولائی 2020 سے جون 2021) کے لیے 80 فیصد مارکیٹ کے اخراجات برداشت کرکے کورونا وبا کے دوران بھی اس طبقے کی مدد بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک پہلے ہی اپنے خالص منافع کا 10 فیصد سیلاب متاثرین کے لیے عطیہ کر چکا ہے، خسارے میں چلنے والے اس سرکاری ادارے کو برسوں بعد منافع بخش بناتے ہوئے رواں سال جون میں زرعی ترقیاتی بینک نے 51 کروڑ 40 لاکھ روپے کا منافع بعد از ٹیکس ادا کیا۔

زرعی ترقیاتی بینک نے اس تبدیلی کی وجہ چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے بہتر اندرونی نگرانی اور اپنے آپریشنز کو ڈیجیٹل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے بڑھتے استعمال کو قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایشیائی ترقیاتی بینک کی مالی سال 2022 میں مہنگائی میں اضافے کی پیش گوئی

اس تبدیلی کے نتیجے میں ریکوری میں بہتری آئی اور فنڈز کی واپسی ہوئی کیونکہ فیلڈ اسٹاف کی سخت نگرانی کی گئی، انتظامیہ نے ایڈجسٹمنٹ قرضے پر توجہ مرکوز کی اور 2 سال کے لیے اضافہ روک دیا۔

اسی عملے کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ خود ان فائلوں کو بازیافت کریں اور ان فنڈز کو واپس لائیں، اس کی ترغیب کے لیے ریکوری پر 10 فیصد انعام بھی رکھا گیا۔

بیرونی آڈیٹرز کا تصور نجی بینکوں کی طرز پر متعارف کرایا گیا اور 31 میں سے 20 زونز کا آڈٹ اے کلاس آڈٹ فرموں نے کیا۔

نتیجتاً اسپیشل ایسٹ مینجمنٹ (ایس اے ایم) کی ریکوری جون 2021 میں 2 ارب 90 کروڑ روپے تک پہنچ گئی اور رواں سال جون میں 4 ارب 10 کروڑ روپے تک پہنچ گئی جوکہ جون 2019 میں 60 کروڑ 70 لاکھ روپے اور جون 2020 میں 66 کروڑ تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں