سندھ: سیلاب زدہ علاقوں میں پانی کی سطح میں کمی، جاں بحق افراد کی تعداد 1500 سے متجاوز

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیلاب سے متعلق 22 اموات کی اطلاع ملی ہے— فوٹو: رائٹرز
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیلاب سے متعلق 22 اموات کی اطلاع ملی ہے— فوٹو: رائٹرز

ملک بھر میں سوا 3 کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کرنے والے حالیہ سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ سندھ میں متاثر علاقوں میں پانی کی سطح کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔

جمعہ کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں سندھ ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز نے کہا کہ 15 ستمبر کو آبی بیماریوں کا شکار 92 ہزار797 شہریوں کا علاج کیا گیا، ان میں سے 588 میں ملیریا کی تصدیق ہوئی جبکہ اس کے علاوہ بھی 10 ہزار 604 کیسز ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ: 2 ہفتوں میں ڈینگی اور ملیریا کے 4100 سے زائد کیسز رپورٹ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کو ڈائریا کے 17 ہزار977 کیسز اور جلد کی بیماری کے 20 ہزار 64 کیسز رپورٹ ہوئے، ڈینگی کے 28 کیسز کے ساتھ سیلاب زدہ علاقے میں قائم کیے گئے فیلڈ اور موبائل ہسپتالوں میں یکم جولائی سے اب تک مجموعی طور پر 23 لاکھ مریضوں کا علاج کیا جاچکا ہے۔

اس کے علاوہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیلاب سے متعلق 22 اموات کی اطلاع ملی ہے جس کے بعد 14 جون سے اب تک مجموعی طور پر 1508 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ کرنے والی نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیلاب سے 9 افراد زخمی ہوئے جس سے زخمی ہونے والوں کی مجموعی تعداد بھی 12 ہزار 758 ہوگئی ہے۔

مون سون کی ریکارڈ بارشوں اور شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں سے گلیشیئرز پگھلنے کے نتیجے میں آنے والا حالیہ سیلاب گھروں، گاڑیوں، فصلوں اور مویشیوں کو بہا لے گیا جس سے نقصان کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کیلئے اقوام متحدہ کی ہنگامی اپیل پر 3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر جمع

حکومت اور اقوام متحدہ نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کا ذمے دار موسمیاتی تبدیلیوں کو ٹھہرایا ہے، پاکستان میں جولائی اور اگست میں 391 ملی میٹر یا 30 سال کی اوسط سے تقریباً 190 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے، سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ میں 466 فیصد زیادہ بارش ہوئی۔

سندھ میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے

جمعہ کے روز صوبے کے کچھ حصوں میں زندگی معمول پر آنے کے آثار نظر آئے کیونکہ پانی کی سطح ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔

دادو کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) مرتضیٰ علی شاہ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ضلع کے میہڑ شہر میں رنگ بند سمیت مختلف مقامات پر سیلابی پانی کی سطح تقریباً دو فٹ تک کم ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہر کے ملحقہ علاقوں میں اب بھی آٹھ سے زائد فٹ اونچا پانی موجود ہے لیکن سطح مسلسل کم ہو رہی ہے اور شہر میں بازار جزوی طور پر کھلنا شروع ہوگئے ہیں۔

— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

دادو کے اسسٹنٹ کمشنر محسن شیخ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ سیلاب کے باعث محفوظ مقامات پر منتقل ہونے والے میہڑ کے رہائشی پانی کی سطح میں کمی کے بعد واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر نے مزید کہا کہ خیرپور ناتھن شاہ میں بھی اس اقدام سے پانی کی سطح گر گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ: بعض علاقوں میں پانی کی سطح میں کمی کے باوجود حکام محتاط

اس کے علاوہ دادو کے حلقہ پی ایس-74 سے منتخب ہونے والے پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی پیر مجیب الحق نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مین نارا ویلی ڈرین میں پانی کی سطح دو فٹ تک گر گئی ہے۔

جوہی میں دادو کے حلقہ این اے-235 سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی رفیق جمالی نے بتایا کہ شہر میں پانی کی سطح آٹھ سے نو فٹ بلند ہے اور شہر کے رنگ بند میں پانی کی سطح گر رہی ہے، جوہی میں بازار جزوی طور پر کھلنا شروع ہوگئے ہیں۔

جامشورو کے حلقہ این اے-233 سے منتخب ہونے والے پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی سکندر علی راہوپوٹو کا اندازہ ہے کہ سطح دو فٹ گرنے کے بعد بھان سید آباد اور ملحقہ علاقوں میں آٹھ سے نو فٹ تک پانی کھڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھان سید آباد جزوی طور پر کھل گیا ہے۔

منچھر جھیل کے آبپاشی سیل کے انچارج اہلکار شیر محمد ملاح کے مطابق منچھر جھیل میں پانی کی سطح جمعہ کی صبح 121.5 فٹ کی سطح پر ریکارڈ کی گئی۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کی ویب سائٹ کے مطابق دریائے سندھ میں جمعہ کی سہ پہر درمیانے درجے کا سیلاب دیکھنے میں آرہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف منصوبہ بنانا ہوگا، وزیراعظم

جنوبی صوبہ سندھ میں سیلاب سے لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، بہت سے لوگ اپنے آپ کو پانی سے بچانے کے لیے بلند شاہراہوں کے کنارے سو رہے ہیں۔

— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم پاکستان میں دستیاب تمام مینوفیکچررز سے خیمے خرید رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب بھی سندھ میں بے گھر افراد میں سے ایک تہائی کے پاس ان سیلاب سے بچنے کے لیے خیمہ تک نہیں ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران حکام نے سیلاب کے پانی کو بجلی گھروں جیسے اہم ڈھانچے سے دور رکھنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں جبکہ اپنے مویشیوں کو بچانے کی کوشش میں مصروف کسانوں کو ایک نئے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ چارہ ختم ہونا شروع ہو گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں