سندھ: سیلاب کے بعد بیماریوں کا پھیلاؤ، عالمی ادارہ صحت کا 'ایک اور تباہی' کا انتباہ

سربراہ ڈبلیو ایچ او نے مخیر افراد پر زور دیا کہ وہ زندگیاں بچانے، سیلاب زدگان کو  مصائب سے بچانے کے لیےامداد کرتے رہیں — فوٹو: رائٹرز
سربراہ ڈبلیو ایچ او نے مخیر افراد پر زور دیا کہ وہ زندگیاں بچانے، سیلاب زدگان کو مصائب سے بچانے کے لیےامداد کرتے رہیں — فوٹو: رائٹرز

سندھ میں تباہ کن سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلنے کے منڈلاتے خدشات کے باعث عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بیماری اور موت کی آنے والی 'دوسری تباہی' سے خبردار کردیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے جاری کردہ انتباہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قوم سے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بچوں کی خوراک اور کمبل عطیہ کرنے کی اپیل کے بعد سامنے آیا ہے۔

اپنے بیان میں ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے مخیر افراد پر زور دیا کہ وہ زندگیاں بچانے اور سیلاب زدگان کو مزید مصائب سے بچانے کے لیے کھلے دل سے امداد کرتے رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کیلئے عدم تحفظ کے دہرے خدشات

انہوں نے نشاندہی کی کہ سیلاب زدہ علاقوں میں پانی کی سپلائی معطل ہے جس کی وجہ سے لوگ غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہیں، جو ہیضہ اور دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ گندا پانی مچھروں کی افزائش گاہ کا بن جاتا ہے اور ملیریا، ڈینگی جیسی ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھیلاتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ صحت مراکز سیلاب میں ڈوب چکے ہیں، ان میں فراہم کی جانی والی خدمات کو نقصان پہنچا ہے اور لوگ گھروں سے نقل مکانی کر گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے صحت کی معمول کی خدمات تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک کے شعبہ صحت میں کام کرنے والے افراد نے اس قدرتی آفت کے دوران خدمات کی فراہمی کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے، سیلاب کے دوران تقریباً 2 ہزار مراکز صحت مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کی مخیر حضرات سے سیلاب متاثرین کیلئے کمبل، بچوں کی غذا فراہم کرنے کی اپیل

انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او نے ڈائریا سے نمٹنے کے لیے پانی صاف کرنے والی کٹس اور اورل ری ہائیڈریشن سالٹس فراہم کیے ہیں۔

— فوٹو: قربان خشک
— فوٹو: قربان خشک

انہوں نے مزید کہا کہ ڈبلیو ایچ او نے فوری طور پر ڈبلیو ایچ او کنٹنجینسی فنڈ سے ایک کروڑ ڈالر جاری کیے جس سے ملک میں ہنگامی ضروری ادویات اور دیگر سامان پہنچانے میں مدد ملی۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے اقوام متحدہ کی سیلاب زدگان کی فوری امداد کے لیے جاری ہنگامی اپیل پر 'فوری ردعمل' دینے پر عطیہ دہندگان کا بھی شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم بحران کے دوران ہونے والے نقصان کا جائزہ لینے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور جلد ہی نظرثانی شدہ اپیل جاری کریں گے۔

سندھ میں مزید 90 ہزار مریضوں کا علاج

دوسری جانب محکمہ صحت سندھ نے کہا ہے کہ یکم جولائی سے اب تک صوبے بھر کے مختلف میڈیکل کیمپوں میں مجموعی طور پر 25 لاکھ مریضوں کا علاج کیا جاچکا ہے۔

سندھ ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی رپورٹ مطابق جلدی بیماریوں کے 5 لاکھ 94 ہزار241 مریضوں کا علاج کیا گیا، اس کے بعد ڈائریا کے 5 لاکھ 34 ہزار 800، ملیریا کے 10 ہزار 702، ڈینگی کے ایک ہزار 401 اور دیگر امراض میں مبتلا 12 لاکھ 74 ہزار 501 مریضوں کا علاج کیا گیا ہے۔

رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 90 ہزار 398 مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں سے 17 ہزار 919 کو ڈائریا، 19 ہزار 746 کو جلد کی بیماری، 695 کو ملیریا اور 388 کو ڈینگی تھا۔

15 ستمبر کو صوبے میں تقریباً 92 ہزار 7977 شہریوں کا علاج کیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے دادو کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر محمد علی سمیجو نے کہا کہ ضلع کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں خاص طور پر گیسٹرو اور ملیریا سمیت مختلف بیماریاں سامنے آرہی ہیں۔

دادو کے ایک میڈیکل کیمپ کے افسر ڈاکٹر ارشاد میمن نے بتایا کہ 25 اگست سے 17 ستمبر تک کم از کم 18 ہزار 289 حاملہ خواتین کی اسکریننگ کی گئی۔

فوٹو:رائٹرز
فوٹو:رائٹرز

دادو سول ہسپتال کے ڈاکٹر کریم میرانی نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ بیماریوں میں بہت اضافے کی وجہ سے ہسپتال مریضوں سے بھر گیا ہے، مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں 4 سے 5 بچوں کو ایک ہی بستر پر رکھنا پڑ رہا ہے۔

ملک بھر میں ہونے والی مون سون کی غیر معمولی ریکارڈ بارشوں اور شمالی علاقوں میں گلیشئر پگھلنے سے آنے والے سیلاب نے 14 جون سے اب تک سوا 3 کروڑ افراد کو متاثر کیا ہے جب کہ اس ہلاکت خیز سیلاب کے دوران ایک ہزار 540 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

اس ملکی تاریخ کے بدترین تباہ کن سیلاب سے گھر، سڑکیں، پٹریاں، مویشی اور فصلیں بہہ گئیں جس کے نقصان کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

حکومت اور سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے اس صورتحال کا ذمہ دار موسمیاتی تبدیلی کو ٹھہرایا ہے جو سیلاب کی وجہ بنا اور ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا۔

حالیہ سیلاب کے دوران صوبہ سندھ خاص طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، صوبے میں موجود ملک کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر میں پانی کی سطح میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ شمالی علاقوں اور بلوچستان سے آنے والا سیلابی پانی جنوب کی جانب سندھ کا رخ کرتا ہے اور اپنے پیچھے موت اور تباہی کی داستان چھوڑ جاتا ہے۔

— فوٹو: قربان خشک
— فوٹو: قربان خشک

سندھ میں سیلاب سے لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے، لوگ اپنے آپ کو پانی سے بچانے کے لیے بلند سطح پر موجود سڑکوں کے کنارے سونے پر مجبور ہیں۔

مختلف علاقوں میں پانی کی سطح میں کمی

منچھر جھیل کے آبپاشی سیل کے انچارج شیر محمد ملاح کے مطابق منچھر جھیل میں پانی کی سطح اتوار کی صبح 120.9 فٹ ریکارڈ کی گئی جو ہفتے کی شام 121.5 تھی۔

— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

اسی طرح مین نارا ویلی ڈرین (ایم این وی ڈی) جسے عرف عام میں رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین-I کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے آر ڈی-10 اپ اسٹریم منچھر جھیل کے مقام پر پانی کی سطح کم ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) دادو سید مرتضیٰ علی شاہ نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ خیرپور ناتھن شاہ، دادو، میہڑ اور جوہی کے علاقوں میں بھی پانی کی سطح کم از کم تین فٹ کم ہوگئی ہے، تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ضلع سیہون اور دادو میں پانی اب بھی موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں