سیلاب سے متاثرہ افراد کی اکثریت ریاستی اداروں کی کارکردگی سے غیر مطمئن

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2022
زیادہ تر علاقوں میں لوگ ریاستی اداروں میں سے کسی سے خوش نہیں تھے—تصویر:اے ایف پی
زیادہ تر علاقوں میں لوگ ریاستی اداروں میں سے کسی سے خوش نہیں تھے—تصویر:اے ایف پی

سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ریاستی اداروں اور حکمراں جماعتوں کی کارکردگی سے نالاں نظر آئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر سوشل نیٹ ورکس بشمول دور کے رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں نے حالیہ سیلاب کے تناظر میں بڑے پیمانے پر ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔

یہ پتن ترقیاتی تنظیم کے جائزاتی سروے کا بنیادی نکتہ تھا جو 11 سے 15 ستمبر کے دوران تین صوبوں کے 14 اضلاع کے 38 آفت زدہ علاقوں میں کمیونٹی پر مبنی کارکنوں کے ذریعے کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کیلئے ناکافی فنڈنگ، اقوام متحدہ کا دوبارہ امداد کی اپیل کا فیصلہ

سروے سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر علاقوں میں لوگ ریاستی اداروں میں سے کسی سے خوش نہیں تھے، البتہ تین علاقوں میں الخدمت فاؤنڈیشن کو سراہا گیا جبکہ چند ایک علاقوں میں ریسکیو 1122 اور فوج کی بھی تعریف کی گئی۔

تاہم کچھ متاثرہ افراد نے سوال کیا کہ وسائل ہونے کے باوجود ریاستی اداروں کو متاثرہ افراد تک پہنچنے میں 'عرصہ' کیوں لگ گیا۔

تقریباً 23 علاقوں نے لوگوں نے کسی ادارے کا نام نہیں بتایا کیونکہ کسی ادارے نے ان کے علاقوں میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

نقل مکانی کے حوالے سے 92 فیصد علاقوں کے لوگوں کو اپنے گاؤں اور محلے چھوڑنے پڑے جبکہ 8 علاقوں کے زیادہ تر لوگ سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

تاہم 30 علاقوں میں خاندان کا ہر فرد نقل مکانی کر گیا جب کہ 8 علاقوں کے لوگوں نے کسی ایک کو پیچھے چھوڑ دیا۔

مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کیلئے امدادی اشیا کی خریداری، اضافی 10 ارب روپے کی منظوری

کمیونٹی کے زیادہ تر افراد نے بتایا کہ بے گھر خاندانوں نے اپنی رہائش گاہوں کو واپس آنا شروع کر دیا ہے جبکہ 37 فیصد مقامات پر کوئی بھی خاندان واپس نہیں آیا۔

سروے کے مطابق 151 اموات ہوئیں جن میں 51 خواتین، 49 مرد اور 51 بچے شامل تھے، متاثرہ علاقوں میں تقریباً ایک ہزار گائیں، 12 سو بھینسیں اور 3 ہزار سے زائد بکریاں اور بھیڑیں ضائع ہوئیں۔

مجموعی طور پر 5 ہزار 795 پکے اور 7 ہزار 195 کچے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ تقریباً 7 ہزار مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔

اسی طرح 11 مقامات سے کسی نے بھی گندم کے اناج کے نقصان کی اطلاع نہیں دی، ایسا لگتا ہے کہ ان مقامات کے لوگ بہت غریب تھے اور انہوں نے کوئی گندم ذخیرہ نہیں کی، جب کہ 6 علاقوں میں گندم کا نقصان 10 سے 500 کلو گرام کے درمیان تھا اور 14 مقامات پر گندم کا نقصان 5 سو سے 8 ہزار کلو گرام کے درمیان تھا۔

یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 3.5 فیصد رہ جانے کا خدشہ

دو علاقوں کے علاوہ کپاس، چاول، سبزیوں، پھل دار درختوں اور چارے کی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔

پتن کے سروے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سیلاب کے 6 ہفتوں کے بعد بھی 15 مقامات کے بہت سے خاندان سڑکوں، پشتوں اور بغیر خیموں کے کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرتے ہوئے پائے گئے جب کہ 14 علاقوں کے بہت سے لوگ اب بھی اپنے گاؤں میں ہیں لیکن پلاسٹک کی ترپالوں کے نیچے رہ رہے ہیں۔

امداد کے حوالے سے سروے میں کہا گیا کہ 10 مقامات پر اکثریت کو کچھ بھی نہیں ملا۔

سروے شدہ مقامات کی جانب جانے والی سڑکوں کے حالات کے بارے میں بتایا گیا کہ 9 علاقوں میں سڑکیں مکمل طور پر ٹوٹی ہوئی تھیں اور 17 علاقوں میں سڑکیں چھوٹی گاڑیوں کے لیے موزوں نہیں تھیں، 8 مقامات کی جانب جانے والی سڑکیں ہر قسم کی گاڑیوں کے لیے موزوں تھیں۔

مزید پڑھیں: سندھ: سیلاب زدہ علاقوں میں گیسٹرو سمیت دیگر بیماریاں پھیلنے سے مزید 6 افراد جاں بحق

لوگوں کی فوری ضروریات کے بارے میں سروے میں کہا گیا کہ خشک راشن، پینے کا پانی، صابن، سینیٹری پیڈ، مچھر دانی، چارپائیاں اور کمبل/لحاف کی سب سے زیادہ ضرورت ہیں۔

سروے میں ضرورت مند خاندانوں کو ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے نقد رقم کی منتقلی کی سفارش کی کہ اس سے مقامی کاروبار کو تقویت ملے گی، قرضوں میں کمی اور غبن کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں