سی سی پی او لاہور تنازع: وفاق اور پنجاب کے درمیان تناؤ میں اضافہ

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2022
وزیر اعلیٰ پنجاب نے چارج چھوڑنے سے انکار کرنے پر غلام محمود ڈوگر کی تعریف کی—فائل فوٹو : ٹوئٹر/مونس الٰہی
وزیر اعلیٰ پنجاب نے چارج چھوڑنے سے انکار کرنے پر غلام محمود ڈوگر کی تعریف کی—فائل فوٹو : ٹوئٹر/مونس الٰہی

لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسر غلام محمود ڈوگر کی وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات اور اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کے بعد ان کے تبادلے پر وفاق اور حکومت پنجاب کے درمیان اختلافات مزید بڑھ گئے۔

غلام محمود ڈوگر اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ملاقات کی ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس نے اس معاملے پر مزید بحث چھیڑ دی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے چارج چھوڑنے سے انکار کرنے پر غلام محمود ڈوگر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ‘بہت خوب، آؤ گلے لگو’۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے سول سیکرٹریٹ میں پولیس افسران سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی باضابطہ اجازت کے بغیر کسی بھی سول افسر کو وفاقی حکومت کے سپرد نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور کا تبادلہ، صوبائی حکومت کا وفاق کو خدمات واپس کرنے سے انکار

غلام محمود ڈوگر کو فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کے ایک روز بعد انہوں نے کہا کہ ‘آئینی اور قانونی طور پر حکومت پنجاب افسران کو چارج چھوڑنے سے روک سکتی ہے’۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا مشہود نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی سی پی او نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد نہ کر کے بطور وفاقی سرکاری ملازم اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سے سی سی پی او لاہور کے گلے ملنے کی تصاویر نے پولیس کمیونٹی میں تقسیم پیدا کر دی جوکہ خاص طور پر پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کے افسران کے درمیان واضح نظر آئی۔

ان میں سے کچھ نے سی سی پی او کے اس اقدام کی حمایت کی جب کہ اکثریت نے فیڈرل سروس افسر ہونے کے ناطے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے کسی سیاسی جماعت کی جانب مائل ہونے کو ایک ‘غلط مثال’ قرار دیا۔

مزید پڑھیں: لاہور: مریم اورنگزیب، جاوید لطیف کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج

تاہم دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا حکم انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ تھا لیکن وہ پنجاب میں واحد افسر نہیں ہیں جنہوں نے اس صورتحال کا سامنا کیا۔

قبل ازیں موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں تعینات ہونے والے متعدد افسران کو صوبہ چھوڑنے یا نتائج کا سامنا کرنے کا اشارہ دیا جا چکا ہے۔

اس وقت کے سی سی پی او لاہور بلال صدیق کامیانہ، ڈی آئی جی آپریشنز ریٹائرڈ کیپٹن سہیل چوہدری اور اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ پنجاب عثمان انور ان اہلکاروں میں شامل ہیں جنہیں یہ ‘پیغام’ پہنچایا گیا۔

کئی پولیس اہلکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ وفاقی حکومت گریڈ 21 کے پولیس افسر غلام محمود ڈوگر کے خلاف مبینہ طور پر ‘احکامات کی خلاف ورزی’ کرنے پر تادیبی کارروائی شروع کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب: 28 مئی کو پی ٹی آئی مارچ کے دوران پولیس کارروائی کی رپورٹ طلب

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے غلام محمود ڈوگر کو واپس طلب کیا گیا تھا اور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یہ کارروائی مسلم لیگ (ن) کے وزرا مریم اورنگزیب، جاوید لطیف اور پی ٹی وی کے 2 ملازمین کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے تحت درج ایف آئی آر کے ردعمل میں شروع کی گئی۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ ٹرانسفر آرڈر کے اگلے روز غلام محمود ڈوگر نے چارج چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے معمول کے مطابق اپنی ڈیوٹی نبھائی۔

سی سی پی او کے تبادلے کے آرڈر کی قانونی اور انتظامی حیثیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عہدیدار نے کہا کہ پی ایس پی کمپوزیشن اینڈ کیڈر رولز 1985 میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سول سروسز افسران کی نگران ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب: پی ٹی آئی کےخلاف کارروائی کرنے پر 55 ایس پیز، ڈی ایس پیز کے تبادلے

انہوں نے کہا کہ حکومت افسران کی تبدیلی، تبادلے، تقرر اور ترقی کا حق محفوظ رکھتی ہے اور وہ اس حکم کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں، صوبائی حکومتیں اس معاملے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی مجاز نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جب اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے صوبوں میں تعیناتی کے دوران اپنے تبادلوں کے احکامات پر عمل نہ کرنے پر افسران کے خلاف کارروائی کی۔

تاہم عہدیدار نے یہ بھی واضح کیا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس سروس کی فوری ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اقدامات کے مضمر اختیارات موجود ہیں لیکن بہرحال وفاقی ملازم کے قوانین مقدم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور نے آئی جی کے ‘اختیارات’ کو چیلنج کرکے نیا ‘پنڈورا بکس’ کھول دیا

دریں اثنا پولیس افسران کی کانفرنس میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ حکومت دیہی علاقوں کے لیے ریٹائرڈ آرمی کمانڈوز پر مشتمل ایک فورس قائم کرنے پر غور کر رہی ہے، اس فورس کو تنخواہ کا خصوصی پیکیج دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہائی ویز پر جرائم کی روک تھام کے لیے 150 پولیس پیٹرولنگ پوسٹوں کے قیام کے دیرینہ منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔

وزیر اعلیٰ نے جی او آر-ون میں افسران کے لیے رہائشی سہولیات میں اضافے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔

وزیر داخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر نے کہا کہ پولیس افسران کو آسان شرائط پر گھر دینے کی تجویز کا جائزہ لیا جائے گا۔

اجلاس میں آئی جی پی، ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب، سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی اور چیف سیکرٹری نے شرکت کی

تبصرے (0) بند ہیں