کراچی: آن لائن ہراسانی کیس میں نوجوان کو 22 ماہ قید کی سزا

24 ستمبر 2022
طالبہ کو معاوضے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرم کو 60 روز کی اضافی قید بھگتنا ہوگی—فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز
طالبہ کو معاوضے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرم کو 60 روز کی اضافی قید بھگتنا ہوگی—فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز

کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ایک نوجوان کو دھوکا دہی سے ایک نو عمر طالبہ کی قابل اعتراض تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے اور اسے بلیک میل کر کے دوستی پر مجبور کرنے کے الزام میں 22 ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عبدالخالق کو مارچ میں گلستان جوہر میں جماعت نہم کی طالبہ کو بلیک میل کرنے اور اس سے 2 لاکھ روپے کا مطالبہ کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) مکیش کمار تلریجا نے فریقین کے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ انہوں نے انٹرنیٹ سپیمنگ کے جرم کے ارتکاب پر 20 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا جو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ 2016 کے سیکشن 22(1)(b)(C) اور (d) کے تحت قابل سزا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’جنسی ہراسانی‘ کیا ہے اور پاکستانی قانون اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟

اس کے علاوہ جج نے مجرم کو متاثرہ لڑکی کو ایک لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا، عدم ادائیگی کی صورت میں مجرم کو 60 روز کی اضافی قید بھگتنا ہوگی۔

جج نے فیصلہ دیا کہ متاثرہ/ شکایت کنندہ اور اس کے خاندان کے افراد کی شناخت کو سندھ وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے سیکشن 16(2) کے تحت محفوظ کیا گیا تھا تاکہ انہیں کسی بھی سماجی نقصان سے بچایا جا سکے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران متاثرہ لڑکی نے مؤقف اختیار کیا کہ اس کی ملزم کے ساتھ دوستی ہوگئی تھی، وہ اس کے ساتھ ویڈیو کال پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تصویریں بھی شیئر کرتی تھی، ملزم نے جان بوجھ کر ویڈیو کالز سے تصاویر اور ویڈیوز ریکارڈ/کلک کیں۔

تفتیشی افسر نے مؤقف اختیار کیا کہ اس نے متاثرہ لڑکی کی خالہ کا بیان ریکارڈ کیا جس نے شکایت کنندہ کے الزامات کی تائید کی۔

مزید پڑھیں: کام کی جگہ پر ہراسانی کے قانون کا دائرہ محدود ہے، سپریم کورٹ

بعد ازاں سائبر کرائم سیل نے ملزم کو گرفتار کر کے اس کا موبائل فون اور ایک سم کارڈ برآمد کر لیا۔

جس سے فرانزک ماہرین نے شکایت گزار کی جنسی طور پر واضح تصاویر برآمد کیں اور مزید فرانزک تجزیے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہی قابل اعتراض تصاویر فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام پر جعلی شناخت کے ذریعے شیئر کی گئیں۔

سرکاری پراسیکیوٹر شیراز راجپر نے دعویٰ کیا کہ استغاثہ نے کامیابی کے ساتھ اپنا مقدمہ کسی معقول شک سے بالاتر ہو کر ثابت کردیا ہے۔

وکیل دفاع منور ڈاہری نے کہا کہ استغاثہ کی کہانی میں مادی تضادات ہیں اور اس مقدمے میں ملزم کو غلط طور پر پھنسایا گیا ہے۔

سائبر کرائم رپورٹنگ مرکز کراچی میں الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی روک تھام کے سیکشن 20 (بدنیتی کوڈ)، 21 (سائبر اسٹاکنگ)، 22 (اسپیمنگ) اور 24 (انفارمیشن سسٹم کے حوالے سے ہونے والے جرائم کی قانونی شناخت) کے تحت ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں