آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نیب اور ایف آئی اے کی مداخلت سے پریشان

24 ستمبر 2022
ریگولیٹر نے کہا کہ اوگرا ایک خودمختار ادارہ ہونے کی حیثیت اور نوعیت میں نیم عدالتی ہے—تصویر: سوشل میڈیا
ریگولیٹر نے کہا کہ اوگرا ایک خودمختار ادارہ ہونے کی حیثیت اور نوعیت میں نیم عدالتی ہے—تصویر: سوشل میڈیا

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ملک کے تیل اور گیس کے شعبے پر قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور دیگر اسی طرح کے اداروں کے ریگولیٹری اور نیم عدالتی دائرہ اختیار کے کردار کو محدود کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی اسٹیٹ آف دی انڈسٹری رپورٹ 2021-20 میں یہ مطالبہ کرتے ہوئے ریگولیٹر نے بتایا کہ گیس کمپنیوں نے اس عرصے کے دوران تقریباً 5 لاکھ نئے گیس کنکشنز کا اضافہ کیا ہے حالانکہ پیداوار میں 6 فیصد کمی اور گیس کی قلت میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک کی مجموعی گیس سپلائی میں سندھ کا حصہ ایک سال میں 11 فیصد کم ہوا جب کہ ملک میں 700 سے زائد سی این جی اسٹیشنز قلت کے باعث بند ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرولیم بحران رپورٹ: کمیشن کی اوگرا تحلیل کرنے کی سفارش

رپورٹ کے ابتدا میں ریگولیٹر کا کہنا تھا کہ 'اوگرا کے حوالے سے نیب، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کے کردار کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے، شاید متعلقہ ایجنسیوں کی جانب سے متعدد کیسز کی تفتیش کے باعث ریگولیٹر کا معمول کا کام گرفتاریوں اور پوچھ گچھ کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اوگرا ایک خودمختار ادارہ ہونے کی حیثیت اور نوعیت میں نیم عدالتی ہے، اسے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کے تحفظ کے لیے ماضی اور مستقبل کے تناظر میں ریونیو کی ضروریات کے تعین سے متعلق معاملات کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے'۔

اوگرا نے دیگر مسابقتی ایندھن، ایل پی جی، لکڑی اور کوئلے کی قیمتوں میں فرق کی وجہ سے رہائشی صارفین کی گیس کی طلب میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بجلی، کاروبار اور کھاد جیسے شعبوں میں ترقی کے نتیجے میں قدرتی گیس کی دستیابی میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں اور فرنس آئل پر پیدا ہونے والی بجلی کی زیادہ لاگت کی وجہ سے حکومت نے پاور پلانٹس کو بھی گیس پر منتقل کر دیا۔

مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات ٹیکس کیس: ’اگر اداروں کی رپورٹ میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے‘

دوسری جانب مقامی گیس کی پیداوار سال کے دوران 6 فیصد سے کم ہو کر 2,006 ملین مکعب فٹ یومیہ (ایم ایم ایف سی ڈی) ہو گئی جو ایک سال پہلے 2 ہزار 138 ایم ایم سی ایف ڈی تھی جبکہ گیس کی کھپت 3 ہزار 683 سے 5 فیصد سے بڑھ کر 3 ہزار 884 ایم ایم سی ایف ڈی تک جا پہنچی۔

پیداوار اور کھپت کے درمیان اس خسارے کو جزوی طور پر آر ایل این جی کی درآمدات کے ذریعے پورا کیا گیا، جس کا 2021-20 کے دوران قدرتی گیس کی سپلائی میں حصہ 29 سے بڑھ کر 33 فیصد ہو گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں 13 ہزار 768 کلومیٹر ترسیل او ایک لاکھ 91 ہزار 478 کلومیٹر تقسیمی گیس پائپ لائنوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جبکہ ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل نے سال 2021-20 کے دوران اپنے ٹرانسمیشن نیٹ ورک کو بالترتیب 37 کلومیٹر اور 17 کلومیٹر تک بڑھایا۔

ایس این جی پی ایل نے اپنے نیٹ ورک میں مالی سال 2021 کے دوران 3 لاکھ 71 ہزار 618 نئے صارفین کو شامل کیا جس کے بعد اس کے مجموعی صارفین کی تعداد 74 لاکھ 10 ہزار ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: اوگرا کی غلطی سے آر ایل این جی صارفین کو 350 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا

دوسری جانب ایس ایس جی سی ایل نے 95 ہزار 436 نئے کنکشنز دیے جس سے اس کے نیٹ ورک پر مجموعی طور پر 32 لاکھ 10 ہزار صارفین ہوگئے۔

اوگرا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2021 کے اختتام تک گیس صارفین کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 6 لاکھ 20 ہزار ہوگئی تھی۔

مالی سال 2020-21 کے دوران استعمال ہونے والی مجموعی گیس کا سب سے بڑا صارف پاور سیکٹر تھا جس کا حصہ 30 فیصد تھا اس کے بعد گھریلو سیکٹر 20 فیصد، کھاد 19 فیصد، جنرل انڈسٹری 8 فیصد اور کیپٹیو پاور 5 فیصد کا صارف رہا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں