روس: اسکول میں فائرنگ سے 7 بچوں سمیت 13 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2022
تفتیش کاروں کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں 2 سیکیورٹی گارڈ، 2 اساتذہ جبکہ 5 بچے شامل ہیں — فوٹو: رائٹرز
تفتیش کاروں کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں 2 سیکیورٹی گارڈ، 2 اساتذہ جبکہ 5 بچے شامل ہیں — فوٹو: رائٹرز

روس کے شہرایزیوسک میں ایک اسکول میں مسلح شخص کی فائرنگ سے 7 بچوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق روس میں اسکولوں پر حملوں کی کڑی کا یہ نیا واقعہ ہے جبکہ ماضی میں اس طرح کے واقعات نے روس کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جبکہ ملک میں لاکھوں لوگوں کو یوکرین میں جنگ کا حصہ بننے کے لیے متحرک کیا جارہا ہے۔

روس کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس حملے میں 13 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں 6 نوجوان اور 7 بچے شامل ہیں جبکہ 14 بچے اور 7 نوجوان زخمی ہوئے ہیں۔

قبل ازیں، غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ روس کی تحقیقاتی کمیٹی نے ٹیلی گرام کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’فائرنگ سے 9 افراد ہلاک ہوئے جن میں 2 سیکیورٹی گارڈ، 2 اساتذہ اور5 بچے شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین پر حملہ، دفاعی اثاثے تباہ کرنے کا دعویٰ، مرکزی ایئرپورٹ کے قریب دھماکے

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ حملہ آور نے فائرنگ کے بعد خودکشی کرلی ہے۔

تفتیش کاروں کے مطابق حملہ آور نے سیاہ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جس میں نازی نشان تھے اور سیاہ ماسک سے چہرہ چھپایا ہوا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ حملہ آور کے پاس کوئی شناختی کارڈ موجود نہیں تھا۔

تفتیش کاروں نے بتایا کہ ’حملہ آور کی شناخت نہیں ہوسکی، ہم تحقیقات کر رہے ہیں‘۔

روس کی وزارت داخلہ نے کہا کہ حملے میں 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: یوکرین حملہ: امریکا، یورپی یونین سمیت متعدد ممالک کی روس پر سخت پابندیاں

علاقے کے گورنر الیگزینڈر بریچالوف نے ایزیوسک میں اسکول نمبر 88 کے باہر بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’ہلاک اور زخمیوں میں بچے بھی شامل ہیں‘۔

ویڈیو میں ریسکیو اور طبی کارکنوں کو پس منظر میں جائے وقوع پرکام کرتے دیکھا جا سکتا ہے، چند لوگ اسٹریچر کے ساتھ اسکول کے اندر بھاگ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس کے حملے کے بعد یوکرین کے مناظر

روس کی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے 14 ایمبولینس ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔

ایزیوسک روس کے اُدمورٹ جمہوریہ کا علاقائی دارالحکومت ہے، جو ماسکو کے مشرق میں تقریباً ایک ہزار کلومیٹر (620 میل) پر واقع ہے، اس شہر کی آبادی تقریباً 6 لاکھ 30 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل روس میں اسکول پر حملے کا واقعہ رواں برس اپریل میں پیش آیا تھا جب ایک مسلح شخص نے مرکزی الیانوک کے کنڈرگارٹن میں فائرنگ کرکے ایک استاد اور 2 بچوں کو نشانہ بنایا تھا۔

حکام نے کہا تھا کہ حملہ آور ذہنی مریض تھا، جس نے بعد میں گولی مار کر خود کو ہلاک کیا تھا۔

'ہتھیاروں کے لیے سخت قوانین'

روس میں اسکولوں اور جامعات میں بڑے پیمانے پر حملے 2021 تک شاد و نادر ہوتے تھے، جب روس کے وسطی شہروں کازان اور پرم میں دو الگ الگ ہولناک واقعات پیش آئے تھے جس پر قانون سازوں کو ہتھیاروں تک رسائی کے لیے قوانین سخت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

تفتیش کاروں نے کہا تھا کہ حملہ آور ذہنی طور پر پریشانی کا شکار تھا مگر اس کو نیم خودکار شاٹ گن کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے موزوں سمجھا گیا اور اس نے استعمال بھی کی۔

گزشتہ برس ستمبر میں سیاہ ٹیکٹیکل لباس اور ہیلمٹ پہنے ایک طالب علم نے رائفل سے لیس پرم اسٹیٹ یونیورسٹی کی عمارت میں داخل ہو کر 6 افراد کو ہلاک کردیا تھا، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں۔

اسی سال دوسرا حملہ مئی میں قازان میں ایک 19 سالہ سابق طالب علم نے اپنے پرانے اسکول میں 9 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

اس دن کے حملے پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ہتھیاروں تک رسائی کنٹرول کرنے والے قوانین پر نظرثانی کرنے کی ہدایت دی تھی جبکہ شکار کے لیے رائفلیں رکھنے کے لیے عمر کی حد 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کردی تھی اور ساتھ ہی طبی معائنے کا طریقہ کار بھی سخت بنایا گیا تھا۔

حکام نے اسکولوں پر حملوں کے پیچھے بیرونی مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوجوان روسیوں کو آن لائن اور ٹیلی ویژن پر امریکا اور دیگر ملکوں میں اسی طرح کے حملے دیکھنے کو ملے ہیں۔

اس کے علاوہ روس کی فوج میں شوٹنگ کے دیگر ہائی پروفائل واقعات پیش آ چکے ہیں، جس میں ملک میں ہیزنگ کے معاملے کو توجہ کا مرکز بنا دیا گیا ہے کہ 18 سے 27 سال کی عمر کے مردوں کے لیے فوجی خدمات لازمی ہیں۔

نومبر 2020 میں روس کے شہر ورونیز کے قریب فوجی بیس میں 20 سالہ سپاہی نے اپنے تین فوجی ساتھیوں کو دوران ڈیوٹی ہلاک کردیا تھا۔

اسی طرح 2019 میں اسی طرح کے ایک اور واقعے میں ایک نوجوان سپاہی نے فائرنگ کرکے 8 اہلکاروں کو قتل کیا تھا اور بعد میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ آرمی میں انہیں ہراسانی کا سامنا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں