دنیا بھر میں ممکنہ کساد بازاری کے پیش نظر ایندھن کی طلب میں کمی کے خدشات کے باعث تیل کی قیمتوں میں مسلسل دوسرے روز بھی کمی آگئی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے اہم مرکزی بینکوں کی طرف سے شرح سود اور امریکی ڈالر میں اضافے کی وجہ سے دیگر ممالک کے صارفین کی خام تیل خریدنے کی صلاحیت محدود ہونے سے عالمی سطح پر کساد بازاری کا خدشہ ہے، جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں متاثر ہوئی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نومبر کے لیے برینٹ کروڈ فیوچر 1.35 ڈالر یا 1.57 فیصد کم ہوکر 84.80 ڈالر فی بیرل ہوگیا ہے، جس سے معاہدے میں 84.51 ڈالر تک کمی ہوئی ہے جو 14 جنوری کے بعد سب سے کم ترین سطح ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں واضح کمی کے بعد 8 فیصد اضافہ

امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں خام تیل کی قیمت نومبر میں ترسیل کے لیے 1.15 ڈالر یا 1.46 فیصد کم ہو کر 77.59 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے اور ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں قیمت کم ہو کر 77.21 ڈالر پر آگئی ہے جو 6 جنوری کے بعد کم ترین سطح ہے۔

رپورٹ کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد دونوں معاہدوں میں 5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ڈالر انڈیکس جو بڑی کرنسیوں کے مقابلے ڈالر کی پیمائش کرتا ہے وہ 20 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

امریکی ڈالر مضبوط ہونے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت پر ملنے والے تیل کی طلب میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ تیل کی خریداری کے لیے دیگر کرنسیوں کا استعمال کرنے والے خریداروں کو خام تیل خریدنے کے لیے زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

امریکا خام تیل استعمال کرنے والے سب سے بڑا ملک ہے تاہم امریکا سمیت دیگر ممالک کے مرکزی بینکوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کردیا ہے، جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ معیشت میں تنزلی سست روی کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی کی شرح برقرار

ریلیگیئر بروکنگ میں کموڈٹی ریسرچ کی نائب صدر سوگندھا سچدیوا نے کہا کہ بڑھتی ہوئی افراط زر روکنے کے لیے اہم مرکزی بینکوں کی طرف سے عالمی مالیاتی پالیسی پر دباؤ اور ڈالر میں دو دہائیوں کی بلند تر سطح کے اضافے نے معاشی سست روی کے خدشات کو جنم دیا ہے، جو خام تیل کی قیمتوں کے لیے ایک پیش رفت کے طور پر کام کر رہا ہے۔

سوگندھا سچدیوا نے توقع کا اظہار کیا کہ ڈبلیو ٹی آئی کی قیمتیں 75 ڈالر فی بیرل جبکہ برینٹ کے لیے 80 ڈالر ایک سہارے کے طور پر کارآمد ہو سکتی ہیں۔

روس-یوکرین جنگ سے تیل کی منڈی میں رکاوٹوں اور یورپی یونین کی خام تیل پر دسمبر میں شروع ہونے والی پابندیوں سے قیمتوں میں کچھ بہتری آئی ہے۔

توانائی کی کمپنی ویٹول کے چیف ایگزیکٹو رسل ہارڈی نے کہا کہ ایندھن کی ترسیل متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے روسی تیل کی مصنوعات کی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں آمد متوقع ہے جبکہ وہاں سے سپلائی یورپ جاتی ہے۔

رسل ہارڈی نے سنگاپور میں ایک کانفرنس کے دوران کہا کہ روسی سپلائی کی قلت پوری کرنے کے لیے ہر روز امریکی خام تیل کے دس لاکھ سے زائد بیرل یورپ جاتے ہیں۔

کولمبیا کی توانائی کی سرکاری کمپنی ایکوپیٹرول نے اسی کانفرنس میں کہا کہ روسی سپلائی کی جگہ وہ یورپ کو زیادہ تیل فروخت کر رہے ہیں جبکہ ان کو ایشیا میں مارکیٹ شیئر کے لیے بڑھتا ہوا مقابلہ نظر آ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: اقتصادی سست روی، ڈالر کے استحکام کےخدشات پر تیل کی قیمتوں میں کمی

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب توجہ اس طرف مبذول ہو رہی ہے کہ پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) اور روس کی قیادت میں اتحادی ( اوپیک پلس ) اپنے گزشتہ اجلاس میں تیل کی پیداوار میں معمولی کمی پر اتفاق کے بعد اب 5 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں کیا طے کریں گے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ جب تک اوپیک پلس اپنے ہدف سے زیادہ تیل فراہم کر رہا ہے، اس لیے کسی بھی اعلان کردہ کٹوتی کا سپلائی پر زیادہ اثر نہیں ہو سکتا۔

گزشتہ ہفتے کے اعدادو شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اوپیک پلس نے اگست میں یومیہ 35 لاکھ 80 ہزار بیرل کا ہدف پورا نہیں کیا جو جولائی سے بھی زیادہ کم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں