سندھ میں سیلاب سے نمٹنے میں ناکامی، سپریم کورٹ میں تحقیقات کیلئے درخواست

29 ستمبر 2022
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ حکام اپنی ذمہ داریوں مؤثر طریقے سے ادا نہیں کررہی—فوٹو: رائٹرز
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ حکام اپنی ذمہ داریوں مؤثر طریقے سے ادا نہیں کررہی—فوٹو: رائٹرز

سندھ میں سیلاب سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے میں سندھ حکومت کی ناکامی پر سپریم کورٹ میں تحقیقات کے لیے درخواست دائر کردی گئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ دلبر خان لغاری نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سندھ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے جائزہ لینے کے لیے درخواست دائر کی، یاد رہے کہ آئین کا آرٹیکل 184 (3) شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلی سندھ کی وفاقی حکومت سے پورے سندھ کیلئے مدد کی اپیل

ایڈوکیٹ دلبر لغاری نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ سے صوبے کے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو، ریلیف کے کام اور سیلابی پانی کی نکاسی کی تفصیلات طلب کرے۔

درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے صوبائی حکومت سے امدادی کاموں کے اخراجات کی تفصیلات طلب کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب کی تباہی سے نمٹنے کے لیے جاری کردہ ہدایات بھی طلب کرنے کی درخواست کی۔

درخواست گزار نے الزام لگایا کہ صوبائی حکومت سیلاب زدگان کو خوراک، کپڑے، ادویات اور مالی مدد فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ یہ معاملہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تاکہ متاثرہ لوگوں کو اس مشکل سے نکالا جاسکے کیونکہ قدرتی آفات کے پیش نظر حکام اپنی ذمہ داریاں مؤثر طریقے سے نہیں نبھا رہیں۔

انہوں نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کو روکنے میں ناکامی پر ذمے داران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا، ان کا کہنا تھا کہ مون سون بارشوں سے سانگھڑ، حیدرآباد، میرپورخاص، بے نظیر آباد، سکھر، لاڑکانہ، بدین اور سندھ کے دیگر علاقے زیر آب آگئے ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: بارش سے ہونے والے نقصانات کیخلاف درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کردیے

انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی ایجنسی نے ملک میں شدید بارشوں کے حوالے سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔

درخواست گزار نے 2010 کی سیلاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت سپریم کورٹ نے مرحوم فرخ الدین جی ابراہیم اور جان محمد خان جمالی کی جانب سے بھیجے گئے خط پر از خود نوٹس لیا تھا، خط میں سیلاب زدگان سے امتیازی سلوک کے حوالے سے بات کی گئی تھی، انہوں نے سنہ 2011 کے فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے حکومت کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی، جان اور مال کے تحفظ، آزادی اور املاک کے ساتھ ساتھ معاوضے کے لیے مدد کی ہدایات جاری کی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب زدگان علاقوں میں غیرقانونی تعمیرات کی وجہ سے سیلابی پانی کی نکاسی نہیں ہوسکتی لیکن اس سے قبل غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2010 سے لے کر اب تک سندھ میں نکاسی آب یا نالوں کی صفائی کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا، انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ صوبائی انتظامیہ نے من پسند ایجنٹ کو ٹینڈر دیے تاکہ ان کو اربوں روپے کا فائدہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سیلاب کے بعد غریب ممالک کیلئے معاوضے کی اہمیت مزید اجاگر

درخواست گزار سے دعویٰ کیا کہ سندھ میں حکمران جماعت گزشتہ 15 سالوں سے اقتدار میں ہے لیکن سیلاب کی تباہی سے نمٹنے کے لیے کوئی تعمیراتی کام نہیں کیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کی شکایات کے باوجود صوبائی اور وفاقی اداروں کے نمائندوں نے متاثرہ علاقوں کا دورہ نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں