سائفر کی کاپی میرے پاس تھی غائب ہوگئی پتا نہیں کہاں گئی، عمران خان

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2022
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سائفر ڈی کلاسیفائیڈ کیا گیا تھا— فائل/ فوٹو: اے پی
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سائفر ڈی کلاسیفائیڈ کیا گیا تھا— فائل/ فوٹو: اے پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس سے سفارتی سائفر غائب ہونے سے متعلق کہا ہے کہ میرے پاس ایک کاپی تھی وہ غائب ہوئی کہاں گئی مجھے نہیں پتا۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام 'سوال یہ ہے' میں سائفر کے حوالے سے لیک آڈیوز پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ 'اس کے پیچھے کون ہے اور کیا ہے مجھے حتمی نہیں پتا لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ یہ بہت بڑی سیکیورٹی بریچ ہے '۔

مزید پڑھیں: سفارتی سائفر کی کاپی ‘وزیراعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے غائب’، تحقیقات کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل

انہوں نے کہا کہ 'سوچیں کہ وزیراعظم کی محفوظ لائن کی گفتگو عوام میں آئی ہے'۔

عمران خان نے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے گفتگو کی لیک ہونے والی آڈیو کے بارے میں کہا کہ 'میرے خیال میں یہ ٹیلی فون بات ہے، میرا نہیں خیال کمرے میں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'دوسری آڈیو میں نے نہیں سنی، اس لیے اس پر بات نہیں کرسکتا، اگر 4 لوگ ہیں بالکل کمرے میں ہوئی ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ٹیلی فون لائن پر شہباز شریف کی طرح وزیراعظم کی کالز لیک ہوجاتی ہیں تو ہماری قومی سلامتی پر سوچیں، ہمارے مخالف ہیں، خیرخواہ نہیں ہیں، جو دشمن ملک ہیں اب یہ (آڈیوز) وہاں بھی پہنچ جائیں گی'۔

عمران خان نے کہا کہ 'وزیراعظم پرنسپل سیکریٹری یا کسی سے بھی بات کر رہا ہے تو کوئی اور بات بھی ہوسکتی ہے، بڑی کلاسیفائیڈ بات بھی ہوسکتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے ایسا لگتا ہے کسی نے سیکیورڈ لائن ریکارڈ کی ہے اور وہ ہیک ہوگئی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے 28 مارچ کو خط دکھایا تو ملک کا نام نہیں لیا تھا، جب قومی سلامتی کمیٹی میں رکھا تو وہاں فیصلہ ہوا کہ امریکا کی مذمت کرنی ہے کہ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں جارہے ہیں تب ہم نے اس معاملے کو پبلک کیا'۔

یہ بھی پڑھیں: ’سائفر سے صرف کھیلنا ہے‘، عمران خان کی اعظم خان سے مبینہ گفتگو کی آڈیو لیک

انہوں نے کہا کہ 'ہماری کابینہ کا آخری اجلاس کے منٹس دیکھیں تو پتا چلے گا کہ ہم نے اس کو ڈی کلاسیفائی کردیا تھا'۔

عمران خان سے سوال کیا گیا کہ سائفر کی کاپی کہاں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ 'اگر تو وہ ڈی کلاسیفائی ہے تو چھاپہ مار کر کیا کرنا ہے، ایک میرے پاس تھی، غائب ہوگئی، مجھے نہیں پتا لیکن ایک صدر پاکستان بطور سربراہ سروسز چیف کے پاس ہے، وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی ہوئی ہے'۔

سائفر کی کاپی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ 'ایک ہم نے دفترخارجہ سے لے کر اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجی اور انہوں نے ساری اپوزیشن کو پیش کش کی کہ یہ سائفر ہے یا نہیں کیونکہ یہ انکار کر رہے تھے اور وہ سائفر کی کاپی بھی چیف جسٹس کو بھیج دی'۔

انہوں نے کہا کہ 'سائفر تو دستیاب ہے، ہم نے پبلک اس لیے نہیں کیا کیونکہ اس میں خفیہ کوڈ ہوتا ہے اور پبلک کرتے ہی دفترخارجہ کا کوڈ عام ہوجاتا ہے اس لیے ہم نے نہیں کیا'۔

آڈیو میں سامنے آنے والی زبان اور کھیلنا سے متعلق سوال پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'جب آپ ٹیلی فون پر کسی سے بات کر رہے ہوں تو اس کی اصطلاح ہوتی ہے، کہ ہم نے اس سے کس طرح استعمال کرنا ہے کیونکہ ہم نے اسے استعمال تو کرنا تھا'۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز (30 ستمبر) وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی دھمکی کے حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات پر مبنی سفارتی سائفر کی کاپی وزیراعظم ہاؤس سے غائب ہے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کابینہ کو سفارتی سائفر کے معاملے پر بریفنگ دی گئی جہاں ’انکشاف ہوا کہ متعلقہ سفارتی سائفر کی کاپی وزیراعظم ہاﺅس کے ریکارڈ سے غائب ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے‘، عمران خان کی مبینہ سائفر سے متعلق دوسری آڈیو لیک

بیان میں کہا گیا تھا کہ ’سابق وزیراعظم کو بھجوائے جانے والے اس سائفر کی وزیراعظم ہاﺅس میں وصولی کے ریکارڈ میں اندراج ہے لیکن اس کی کاپی ریکارڈ میں موجود نہیں ہے، قانون کے مطابق یہ کاپی وزیراعظم ہاﺅس کی ملکیت ہوتی ہے‘۔

اعلامیے کے مطابق ’اجلاس نے قرار دیا کہ سفارتی سائفر کی ریکارڈ سے چوری سنگین معاملہ ہے اور تفصیلی مشاورت کے بعد کابینہ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی جو تمام ملوث کرداروں سابق وزیراعظم، سابق پرنسپل سیکریٹری، سابق سینئر وزرا کے خلاف قانونی کارروائی کا تعین کرے گی‘۔

کابینہ کمیٹی میں حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ خارجہ، داخلہ اور قانون کے وزرا شامل ہوں گے۔

کیا ایوان صدر میں بااثر شخصیت سے ملاقات ہوئی؟

وارنٹ گرفتاری کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ 'میرے خلاف 24 ایف آئی آرز ہیں، یہ میرے لیے متوقع تھا کیونکہ ان سب کی سیاست ایسی ہے، میں اس کے لیے تیار تھا، اپنی ٹیم کو بتایا ہوا ہے مجھے کسی بھی وقت گرفتار کرسکتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں اور یہ الیکشن تب کروانا چاہتے ہیں اگر میں نااہل ہوجاؤں'۔

ایوان صدر میں صدرمملکت کی موجودگی میں اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی بااثر شخصیت سے ملاقات کی خبروں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ 'جھوٹ مجھ سے بولا نہیں جاتا اور سچ میں بول نہیں سکتا'۔

تبصرے (0) بند ہیں