پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: صدر کا اراکین پر اختلافات ختم کرکے انتخابات کی تاریخ طے کرنے پر زور

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2022
صدرمملکت کے خطاب کے موقع پر حکومتی اراکین نے غیراعلامیہ بائیکاٹ کیا—فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر
صدرمملکت کے خطاب کے موقع پر حکومتی اراکین نے غیراعلامیہ بائیکاٹ کیا—فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اراکین پر آپس کے اختلاف ختم کرنے اور مل بیٹھ کر اگلے انتخابات کی تاریخ طے کرنے پر زور دیا ہے۔

صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے آغاز پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر کو ایوان میں لے کر آؤ جبکہ حکمراں اتحاد مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیا جس کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے دوران 442 کے ایوان میں پہلے 37 اراکین اور پھر صرف 14 ارکان موجود تھے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت کے خطاب کے موقع پر ایوان میں 14 اراکین میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید، وجیہہ قمر، جویریہ اختر، کشور زہرا، ریاض مزاری، سائرہ بانو، نسیمہ احسان شاہ، ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ، انوار الحق کاکڑ، سرفراز بگٹی اور غوت بخش مہر شامل تھے۔

مزید پڑھیں: پیغام اسلام کانفرنس: ایمانداری کی شروعات اعلیٰ قیادت سے ہوتی ہے، صدر مملکت

پانچویں پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ اگر تمام ادارے اس انداز سے کام نہ کرتے تو سیلاب سے جانی نقصان بھی بہت ہوتا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ مالی نقصان بھی بہت ہوتا۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ میں یہاں آپ کے سامنے قائد اعظم محمد علی جناح کا قول پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’خدا نے ہمیں ایک عظیم موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی ریاست کے معمار کے طور پر اپنی قابلیت کو ثابت کریں اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم اپنی ذمہ داری کے ساتھ انصاف نہ کر سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ میں اس ذمہ داری کا بھی احساس دلانا چاہتا ہوں کہ آزادی کا حصول کتنا مشکل ہے اور جمہوریت کو پروان چڑھتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک مزید مضبوط ہو۔

'سیلابِ عظیم'

صدر عارف علوی نے کہا کہ سب سے پہلے میں پاکستان کو اس وقت درپیش سب سے اہم بحران یعنی کہ سیلاب پر بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں اس سال مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے ایک ’سیلابِ عظیم‘ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہمیں شدید نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اور سیلاب کی وجہ سے اب تک کے اندازے کے مطابق تقریباً 1500 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور گھروں، عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیموں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب تاخیر کا شکار

انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچا، جس سے پاکستان کی ایک بڑی آبادی کا روزگار وابستہ ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ اس موقع پر میں سب سے پہلے ان تمام اداروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے سیلاب متاثرین کو بچایا اور انہیں مدد فراہم کی جن میں سرفہرست پاکستان کی افواج ہیں جنہوں نے اس بحران میں انتہائی منظم انداز میں لوگوں کی جانیں بچائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں وفاقی حکومت، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، صوبائی حکومتوں، این جی اوز اور ہلالِ احمر کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ادارے سیلاب کے فوراً بعد لوگوں کی امداد کو پہنچے اور اب سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کاوشیں کر رہے ہیں۔

عارف علوی نے کہا کہ میں مخیر حضرات اور نجی اداروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بڑے پیمانے پر رقومات جمع کر کے سیلاب زدگان میں تقسیم کیں اس کے علاوہ میں بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کا بھی ذکر کروں گا کہ جس کی مدد سے سیلاب متاثرین کو رقوم کی فراہمی ممکن بنائی گئی اور اب تک 24 لاکھ سے زائد سیلاب متاثرہ خاندانوں میں 61 ارب روپے سے زائد کی رقم تقسیم کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب انتونیو گوتریس کا بھی انتہائی مشکور ہوں جنہوں نے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرین کا احوال جاننے کے لیے ان سے ذاتی طور پر ملاقاتیں بھی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے 30 اگست کی 160 ملین ڈالر کی فلیش اپیل اور پھر اسے816 ملین ڈالر تک بڑھانے کی کال کو سراہتے ہیں جس سے سیلاب متاثرین کو ایک مربوط انداز میں امداد پہنچانے میں مدد ملے گی۔

مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: صدر کے خطاب کے دوران احتجاج کا امکان

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ بین الاقوامی برادری کی توجہ سیلاب متاثرین کی حالت زار کی جانب مبذول کرانے اور بین الاقوامی امدادی کوششوں کو متحرک کرنے کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوا۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہم امریکی کانگریس کے وفد کے بھی شکر گزار ہیں کہ وہ رکن کانگریس شیلا جیکسن کی قیادت میں پاکستان تشریف جائے اور اس کے علاوہ غیر ملکی معززین اور پاکستان میں مقیم سفرا بھی سیلاب زدہ علاقوں میں گئے جس سے انہیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے میں مدد ملی۔

'موسمیاتی تبدیلی'

عارف علوی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اس سیلاب کی شدت اور تباہی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تھی، پاکستان کا موسمیاتی تبدیلی اور عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت کے منفی اور مضر اثرات کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں معزز ایوان میں موجود اراکین پارلیمان ، اکابرین اور حکومت سے وابستہ افراد سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے خیال میں ایمرجنسی ریلیف اور ریسکیو خدمات کی فراہمی کے لیے بوائے اسکاؤٹس اور گرلز گائیڈز کی خدمات امداد اور ریسکیو اور زخمیوں کو ایمرجنسی طبی امداد فراہم کرنے کے لیے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت 6 اکتوبر کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

'مسائل سے نمٹنے کیلئے نوجوانوں کو تیار رہنا چاہیے'

انہوں نے کہا کہ آپ سب اس بات سے واقف ہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن اور گرل اسکاؤٹس کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کے علاوہ پاکستان میں نیشنل کیڈٹ کور کے ذریعے نوجوانوں کو بنیادی فوجی تربیت کے علاوہ ایمرجنسی صورتوں سے نمٹنے کی بھی تربیت دی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جب کے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں سیلاب کا سامنا ہے اور مستقبل میں بھی ایسی آفات کا خطرہ بڑھ گیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بحران اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے علاوہ سی پی آر اور ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی تربیت دیں۔

عارف علوی نے کہا کہ ہنگامی صورتحال کہیں بھی اور کسی بھی جگہ پیدا ہو سکتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان ہمہ وقت ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں یہاں اس امر پر بھی زور دینا چاہتا ہوں کہ تمام ادارے مل کر خون عطیہ کرنے کی مہم، بحران اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے نوجوان نسل کو تیار کریں۔

'زراعت کے حوالے سے فصلوں کی انشورنس کرنی چاہیے'

عارف علوی نے کہا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے ہمارے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچا اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں اور یہ خطرہ ہے کہ اہم فصلیں جس میں چاول، گندم، کپاس شامل ہیں ان کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی۔

صدر مملکت نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ زراعت کے حوالے سے حکومتوں کو فصلوں کی انشورنس کے حوالے سے کسان دوست فصل انشورنس اسکیم لانے پر بھی غور کرنا چاہیے کیونکہ اس میں نجی انشورنس کمپنیوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی کسانوں کو انشورنس فراہم کرنے پر غور کر سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ فصلوں کو پہنچے والے نقصان کا ازالہ کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت 6 اکتوبر کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ڈیموں کی مدد سے سیلاب کے پانی کو محفوظ کر لیں تو نہ صرف خشک موسم میں پانی کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے بلکہ پانی کو محفوظ کرنے کے جدید طریقوں کو اپنا کر ہم زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کر سکتے ہیں اور اپنے زمینی پانی کے ذخائر میں اضافہ کر سکتے ہیں، جبکہ سیلابی ریلے جو شدید تباہی کا باعث بنتے ہیں ان سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے جو ہمیں ضرورت میں مدد فراہم کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا اور اس دوران اس چیز کی نشاندہی کی گئی کہ پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلے کی تباہ کاریوں کو مختلف چھوٹے یا بڑے ڈیموں کی مدد سے کم کیا جا سکتا ہے اور یہ ڈیم پانی کی رفتار کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

عارف علوی نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ہمیں ایسے اقدامات پر خصوصی توجہ دینا ہوگی جن سے نہ صرف ہم سیلاب کی تباہی سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ اپنے پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بارشوں اور دریاؤں سمیت مختلف آبی ذرائع سے تقریباً 150 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوتا ہے مگر پانی ذخیرہ نہ کرنے اور اس کے مؤثر انتظام اور تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

صدرِ مملکت نے کہا کہ پاکستان میں آزادی کے وقت دنیا کا ایک بہترین آبپاشی نظام موجود تھا لیکن ہمارے ہاں فصلوں کی پیداوار دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے کیونکہ دنیا نے زرعی شعبے اور فصلوں اور زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے اعتبار سے بے پناہ ترقی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس شعبے میں پاکستان سے 19گنا چھوٹا ملک نیدرلینڈز ہے جو دنیا میں خوراک کا دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے کیونکہ سائنس اور زراعت کے لیے ٹیکنالوجی میں اس نے اتنی ترقی کی ہے، میرا ملک جو کہ زراعت کے اعتبار سے خود کفیل ہونا چاہیے جس کا آزادی کے وقت بہترین آب پاشی کا نظام تھا مگر اب دنیا کے فی ایکڑ پیداوار سے بھی کم چلتا ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں انتہائی یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ جتنی زمین اور پانی پاکستان کے پاس موجود ہے اگر ہم زرعی شعبے کو جدید بنیادوں پر ترقی دیں تو نہ صرف ہم اپنی زرعی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ انہیں برآمد بھی کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں زرعی شعبے کو ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی دینا ہوگا۔

مزید پڑھیں: صدر عارف علوی 13 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

'پاکستان کی بڑی کامیابیوں میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا ہے'

انہوں نے گزشتہ حکومت کے 8 اور موجودہ حکومت کے تقریباً 4 مہینوں کا بھی ذکر کیا اور پاکستان کے ماضی کی چند بڑی بڑی کامیابیوں کا ذکر بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بڑی کامیابیوں میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا ہے، دہشت گردی کا جس انداز سے پاکستان نے مقابلہ کیا وہ دنیا میں کہیں نہیں کیا گیا، ہم نے دہشت گردی کو بارڈر تک محدود رکھا حالانکہ ہمارے مغرب میں دہشت گردی کی وجہ سے بڑی تباہی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کو شکست دینا ہماری بڑی کامیابی ہے، اس کے علاوہ 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو 40 سال تک پناہ دی جبکہ اگر آپ دنیا کے رویے کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پناہ گزینوں کے رنگ اور نسل کی بنیاد پر انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے مگر ہم نے ایسا نہیں کیا اور ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے۔

عارف علوی نے کہا کہ پاکستانی قوم نے حال ہی میں کورونا وبا کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور میں علما، میڈیا، حکومت، عوام اور تمام اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے نہایت مؤثر انداز میں اس پر قابو پایا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت صدارتی خطاب کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے میں تذبذب کا شکار

صدر مملکت نے کہا کہ این سی او سی اور حکومتی پالیسی کی وجہ سے اپنے پڑوسی ملک اور دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کو بہت کم نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور اس کامیابی پر قوم خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

'نوجوانوں کو مناسب مہارتوں سے لیس کردیا جائے'

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ہماری آبادی کا تقریباً 63 فیصد حصہ 15 سے 33 سال کے نوجوان افراد کا ہے جو کہ 35 ملین کے قریب بنتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک بہت بڑی طاقت اور انسانی وسائل موجود ہیں، اگر ان انسانی وسائل اور طاقت کو تعلیم سے آراستہ کردیا جائے اور انہیں قابل قدر اور مناسب مہارتوں سے لیس کردیا جائے تو یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہی انسانی وسائل اور افرادی قوت غیر تعلیم یافتہ رہیں اور ان کے پاس کوئی ہنر نہ ہو تو یہی آبادی بڑی عمر کو پہنچ کر پاکستان کے لیے بوجھ بن سکتی ہے، لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری قوم کے لیے تعلیم بے حد ضروری ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ حالیہ کچھ اندازوں کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح تقریباً 19 فیصد ہے یونیسیف کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ان بچوں کی تعداد 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے اس لیے یہ حکومت اور ہم سب کا فرض ہے کہ ان تک تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور ہمیں ان بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ علما بھی یہ تجویز پیش کر چکے ہیں کہ مساجد کو فجر سے لے کر ظہر تک اسکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ ہمیں اپنے لوگوں کو ہنر پر مبنی تعلیم دینا بھی ہوگی کیونکہ صرف مزدوری کے ذریعے آمدنی اتنی نہیں ہوگی کہ ہمارے لوگ مناسب روزگار حاصل کر سکیں اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو مڈل اسکول کی سطح سے ہنر سکھائے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے دو بڑے اچھے ادارے موجود ہیں جن میں سے ایک قومی سطح پر موجود نیشنل ووکیشنل اور ٹیکنکل ٹریننگ کا ادارہ (نیوٹیک) موجود ہے اور دوسرا ادارہ ٹیوٹا کی صورت میں صوبائی سطح پر موجود ہے جو انتہائی قابل ذکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اپنی افرادی قوت کو ہنر مند بنانا ناگزیر ہو چکا ہے ورنہ ہم اسی طرح بے ہنر افرادی قوت برآمد کرتے رہیں گے۔

'انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کروڑوں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے'

صدر عارف علوی نے کہا کہ ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانی وسائل کی بھی اشد ضرورت ہے نہ صرف دنیا بلکہ پاکستان کو بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کروڑوں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے اور پاکستان سالانہ 30 ہزار کے قریب آئی ٹی گریجوایٹس پیدا کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں ہمارا پڑوسی ملک تقریباً 8 لاکھ کے قریب آئی ٹی گریجوایٹس پیدا کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: چیف الیکشن کمشنر کا صدر مملکت کے مقرر کردہ اراکین سے حلف لینے سے انکار

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی افرادی قوت کو آئی ٹی کی مہارتیں سکھائے بغیر دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور آئی ٹی مہارتیں دینے سے اس بات کا امکان باقی رہتا ہے کہ لوگ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بیرون ملک جائے بغیر اور جس طرح دنیا مہاجرین کی آمد کی حوصلہ شکنی کررہی ہے اس کے باوجود گھر بیٹھے دنیا بھر کو اپنی مصنوعات اور خدمات بیچ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ایک مثبت اثر یہ پڑے گا کہ جس طرح ہم نے ماضی میں اپنے بہترین دماغ کو برآمد کیا تو ہمیں انہیں باہر نہیں بھیجنا پڑے گا، یاد رہے کہ ان بہترین انسانی وسائل کی تیاری پر ہمارا کثیر سرمایہ اور وسائل بھی صرف ہوئے۔

صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں تربیت یافتہ اور ہنر مند انسانی وسائل کا بڑا فقدان ہے اور ہم صرف اور صرف اپنے انسانی وسائل کی بنیاد پر ہی ترقی کر سکتے ہیں اس لیے حکومت کو دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل کی تربیت کے لیے بھی اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ انسانی وسائل کی تربیت میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کی اہمیت مزید ابھر کر سامنے آئی اس لیے ہم اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے آن لائن تعلیم و تربیت سے بھی مدد لے سکتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے ادارے موجود ہیں جو آن لائن اور فاصلاتی تعلیم پر کام کر رہے ہیں اور ان اداروں اور ان کی صلاحیت میں اضافے اور طلباء کی تعداد بڑھانے کے لیے بہت زیادہ وسائل بھی درکار نہیں ہیں۔

وزیر اعظم کے ڈیجیٹل اسکلز پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ اس سے اب تک تقریباً 24 لاکھ لوگ استفادہ کر چکے ہیں اور اس پروگرام کی مدد سے انہیں جدید آئی ٹی مہارتیں سکھائی گئی۔

'سائبر صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید اہمیت اختیار کر گئی ہیں'

انہوں نے کہا کہ میں خصوصی افراد یا پھر افراد باہم معذوری کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کہ ہماری آبادی کا تقریباً 9 فیصد حصہ ہیں انہیں ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا روزگار گھر بیٹھے کما سکیں۔

صدر مملکت نے آئی ٹی شعبے کے حوالے سے سائبر سیکورٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سائبر سیکورٹی اور کسی بھی قوم کی مجموعی سائبر صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید اہمیت اختیار کر گئی ہیں، دفاع، اہم تنصیبات، فوجی و دفاعی تنصیبات کے تحفظ کے ساتھ معیشت اور اطلاعات کے شعبے میں بھی سائبر سیکورٹی کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت صدارتی خطاب کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے میں تذبذب کا شکار

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ماضی میں ہیکنگ اور سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑا، لہٰذا پاکستان سائبر صلاحیتوں کے اعتبار سے انتہائی سستے اور تیز رفتاری کے ساتھ اپنا مقام بنا سکتا ہے مگر اس کے لیے ہماری فورسز کے ساتھ ساتھ تمام شعبوں کے اداروں اور افراد کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

'صحت کے مسائل اور آبادی پر کنٹرول'

ان کا کہنا تھا کہ شعبہ صحت ملک اور قوم کی صحت کے حوالے سے بہت اہم ہے اور اس شعبے میں مجھے ٹاسک فورس برائے آبادی کی ذمہ داری دی گئی تھی، ہمیں پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح جو کہ تقریباً 2.4 فیصد ہے اس کو کم کرنا ہے۔

عارف علوی نے کہا کہ آبادی میں اضافے کی شرح ایک تو فطری اعتبار سے اس وقت خود کم ہوتی ہے جب معیشت کی بہتری کے ساتھ شرح پیدائش میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ آبادی میں تبدیلی جسے ڈیموگرافک ٹرانزیشن کہتے ہیں یہ دنیا کہ دیگر ممالک میں بھی واقع ہوئی اور یہی وقت ہے کہ ہم علما، میڈیا اور اساتذہ کی مدد سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 90 لاکھ کے قریب حمل واقع ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً 40 سے 50 لاکھ ان چاہے حمل ہوتے ہیں اتنی بڑی آبادی تک مانع حمل مصنوعات جو صرف 35 سے 40 فیصد خاندانوں کو پہنچتا ہے ان سب کو پہنچا کر آبادی میں اضافے کی شرح میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے اور میں امید کرتا ہوں ہے حکومت اس مسئلے کی جانب ضرور توجہ دے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 38 فیصد ذہنی و جسمانی کمزوری کا شکار ہیں اور اس سلسلے میں بچے کی پیدائش کے بعد کے ایک ہزار دن خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس عرصے کے دوران ماں اور بچے کی خوارک پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے ضرورت ہے کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ماؤں کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو دو سال تک اپنا دودھ پلائیں۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا انتخابی ترمیمی بل پر دستخط سے انکار

'بیماریوں کا پھیلاؤ روکنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے '

صدر مملکت نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس عرصے کے دوران چھ مہینے تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ ہی پلایا جائے اور انہیں پانی اور کوئی اور غذا دینے سے بھی پرہیز کیا جائے، ہمیں بچوں کی صحت اور انہیں ماں کا دودھ پلانے کے معاملے پر قرآن کے احکامات کو معاشرے میں عام کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ماں اور بچوں کی ذہنی و جسمانی کمزوری اور غذائی قلت کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام کے تحت گھروں تک غذائی پیکٹس کی فراہمی ممکن بنائی جا رہی ہے اور اس کے علاوہ ہمیں اپنے کھانے پینے کی عادات میں توازن اور تنوع لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری غذائی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کیا جا سکے۔

عارف علوی نے کہا کہ ہمیں بیماریوں کے علاج کے علاوہ بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بیماریوں کا علاج کرنا بیماریوں کو روکنے کی نسبت مہنگا ہے اور ہم ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے اتنا مہنگا علاج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

ہیپاٹائٹس کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق یہ بیماری تقریباً 9 فیصد آبادی میں پائی جاتی ہے اور اس 9 فیصد آبادی کا علاج کرنے کے لیے اربوں ڈالر درکار ہوں گے، لہٰذا مزید لوگوں تک اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتہائی کم وسائل کی ضرورت ہے۔

صدر نے کہا کہ متعدی یا چھوت کی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے طہارت اور صفائی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، متعدی یا چھوت کی بیماریوں میں کورونا جیسی بیماریاں شامل ہیں جو کہ ہاتھ نہ دھونے یا صفائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ایک شخص سے دوسرے شخص تک پھیلتی ہیں اور یہ بات قابل غور ہے کہ طہارت اور صفائی کو اسلام میں نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے اور ہم متعدی یا چھوت کی بیماریوں پر بہتر صفائی ستھرائی کے نظام اور عادات سے قابو پاسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کی تنقید نظر انداز، صدر نے 2 نئے ای سی پی اراکین کا تقرر کردیا

انہوں نے کہا کہ غیر متعدی بیماریوں میں ہمارے ہاں ذیابیطس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک طرف بچوں کو غذائی قلت کی وجہ سے ذہنی و جسمانی کمزوری کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہمارے ہاں موٹاپے اور اس کی وجہ سے بیماریوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے، ہمیں ان مسائل پر لوگوں میں شعور بیدار کر کے قابو پانا ہوگا، ہم نے پولیو کی بیماری پر کافی حد تک قابو پایا مگر اب بھی اس بیماری کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا اس لیے ہمیں اس سلسلے میں مزید محنت اور اقدامات کی ضرورت ہے اور میں اس سلسلے میں بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن سمیت دیگر تنظیموں کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے پولیو کے خاتمے کے لیے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔

'چھاتی کا کینسر'

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے بھی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مرض کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اس کینسر سے شرح اموات بہت زیادہ ہے اور میں سب سے درخواست کروں گا کہ آپ اس بیماری کی علامات جانیں، ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنا جسمانی معائنہ خود کرنے اور اس کی جلد تشخیص اور علاج پر توجہ دیں اور آپ سب اپنے دائرہ کار میں لوگوں کو آگاہی دیں۔

'ذہنی و نفسیاتی صحت'

صدر مملکت نے کہا کہ میں پاکستان میں ذہنی و نفسیاتی صحت کے بنیادی ڈھانچے کے قیام کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں مختلف سروے اور تحقیقات کے مطابق ہماری آبادی کا تقریباً 24 فیصد حصہ ذہنی و نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہے ، ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور غیر معقول رویوں میں اضافے، خودکشیاں جن کی تعداد تقریباً 19 ہزار تھی وہ اپنے پیاروں سمیت دوسروں کو شدید زخمی اور قتل کرنے کے واقعات بھی اس امر کی عکاسی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نفسیاتی مسائل کی وجہ سے منشیات کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے اور تحقیق کے مطابق اسکول اور کالج جانے والے بچے زیادہ دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، بدقسمتی سے، 22 کروڑ آبادی کے لیے صرف 500 کے قریب ماہر نفسیات، تقریباً 1500 سائیکالاجسٹ کی بہت ہی کم تعداد موجود ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں معزز ایوان اور حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ملک میں ذہنی و نفسیاتی صحت کا نظام تشکیل دینے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں، اس نظام میں اعلیٰ تربیت یافتہ اور قابل ماہرین تیار کیے جائیں تاکہ ہماری 24 فیصد آبادی کو ان کی ذہنی و نفسیاتی صحت کے حوالے سے خدمات میسر کی جا سکیں اور انہیں معاشرے کا صحت مند اور فعال شہری بنایا جا سکے۔

'نرسنگ کی تعلیم بڑھائی جائے'

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے صحت کے نظام کو تقریباً 7 لاکھ نرسوں کی شدید کمی کا سامنا ہے جبکہ ہمارے ہاں نرسوں کی تعداد تقریباً 2 لاکھ ہے اور اس کمی کی وجہ سے سرکاری اور نجی دونوں شعبے شدید دباؤ کا شکار ہیں، لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ نرسنگ کی تعلیم بڑھائی جائے اور نجی شعبے کو نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تر بیت کے لیے سہولیات قائم کرنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحت کی انشورنس ، صحت کارڈز کا اجراء قابل تعریف قدم ہے، ہمیں لوگوں کو ٹیلی ہیلتھ کی خدمات کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ لوگ گھر بیٹھے بیٹھے بھی ڈاکٹر سے مفت مشورہ حاصل کر سکیں۔

'خواتین کو کاروبار اور تعلیم میں لانا'

انہوں نے کہا کہ میں اس امر کی بھی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب اس وقت تک ادھورا رہے گا جب تک ہم اپنی تقریباً 50 فیصد خواتین کی آبادی کو معیشت اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں کریں گے اور اسلام میں ہمارے پاس ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں عورتیں کاروبار و تجارت اور ریاستی نظم و نسق کی سرگرمیوں میں شامل تھیں۔

انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی خدیجہ، ایک مضبوط اور خودمختار مسلم خاتون کی روشن اور اعلیٰ مثال ہیں آپ ایک کاروباری خاتون تھیں اور مسلم خواتین کے لیے مثالی حیثیت کی حامل ہیں اور میرا ماننا ہے میرا خیال ہے کہ خواتین کو گھروں تک محدود رکھنے کا تصور مذہب کے بجائے ہماری سماجی اور ثقافتی روایات میں سے نکلا ہے۔

صدر نے کہا کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم عورت کا تحفظ یقینی بنائیں اور انہیں کام کی جگہ پر بالخصوص محفوظ ماحول فراہم کریں، ہمیں خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے اہداف کو جلد از جلد مقرر کرنے کی ضرورت ہے، خواتین کے حقوق اور ان کی معاشرتی شمولیت بڑھانے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہوگی اور ہمیں خواتین کی استعدادِ کار میں اضافہ، ان کے لیے معیاری اور سستی صحت کی سہولیات، تمام سطحوں پر تعلیم کے مساوی مواقع اور مساوی تنخواہ، تمام شعبہ زندگی میں کام کرنے کے یکساں مواقع اور ان کے حقوق کا احترام بھی یقینی بنانا ہوگا۔

'جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل ذرائع کی مدد سے مالی طور پر خودمختار بنا جاسکتا ہے'

انہوں نے کہا کہ ہمیں خواتین کو جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ذرائع کی مدد سے مالی طور پر خود مختار بنانا ہوگا اور ان کی معیشت میں شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا اور اس سلسلے میں مجھے خوشی ہے کہ اسٹیٹ بینک نے اقدامات لیے ہیں اور اب خواتین گھر بیٹھ کر اپنا اکاؤنٹ کھلوا سکتی ہیں اس سے پہلے انہیں ایک مشکل عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔

صدر نے کہا کہ ڈیجیٹل ذرائع اور آئی ٹی کی مدد سے ہماری کچھ خواتین پہلے سے کام کر رہی ہیں اور گھر بیٹھے روزگار کما رہی ہیں، ایمازون اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کی مدد سے خواتین قابل قدر مصنوعات تیار کر کے عالمی مارکیٹ میں بیچ سکتی ہیں اور میں اس ایوان کے توسط سے خواتین کو پیغام دینا چاہوں گا کہ وہ مختلف تربیتی کورسز جس میں ایمازون، گوگل اور فیس بک یا میٹا کی جانب سے پیش کردہ تربیتی کورسز شامل ہیں ان سب سے ضرور استفادہ کریں۔

صدر نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہماری معیشت کو نقصان پہنچا مگر ہم نے حفاظتی تدابیر اور جزوی لاک ڈاؤن کی مدد سے صورتحال پر کافی حد تک قابو پایا، کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں طلب اور رسد کے مسائل پیدا ہوئے، یوکرین اور روس جنگ کے عالمی سطح پر بھی اثرات ہوئے اور اس کا پاکستان پر بھی اثر پڑا۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ وزیر اعظم اور پچھلی حکومت کے وزیر اعظم بھی اس بات پر زور دیتے رہے کہ ہمیں معاشی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا، پچھلے سال ہماری معیشت نے تیزی سے ترقی کی اور 5.97 فیصد کی متاثر کن شرح نمو ریکارڈ کی گئی، ہم نے یہ شرح نمو کورونا وبا، امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، روس یوکرین تنازع سمیت دیگر مسائل کے منفی اثرات کے باوجود حاصل کی اور ان مسائل کی وجہ سے ہماری معاشی نمو کو جھٹکا بھی لگا مگر مجھے امید ہے کہ ہم اپنے موجودہ معاشی مسائل پر قابو پالیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے پر توجہ دینا ہوگی، تمام شعبے کے افراد یہ چاہتے ہیں کہ پالیسیوں کو تسلسل حاصل ہو کیونکہ اس کے بغیر نہ تو سرمایہ کاری کو راغب کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی پائیدار ترقی ممکن ہو سکے گی۔

'آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پر مبارک'

صدر نے کہا کہ میں موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان اقدامات سے ملک کو اقتصادی اور مالیاتی مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی، میں دوست ممالک کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے ہماری مدد کی۔

عارف علوی نے کہا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی کوششوں اور مدد سے مہنگائی پر ان شا اللہ قابو پالیا جائے گا مگر اس کے لیے ہمیں جلد از جلد اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

'ڈالر کی قیمت'

انہوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی اور ڈالر کی قیمت 240 روپے تک پہنچ گئی جو کہ اب تقریباً 223 روپے تک پہنچ گئی ہے، میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مزید مستحکم ہوگی۔

عارف علوی نے کہا کہ قائد اعظم نے بدعنوانی، اقربا پروری اور سفارش ختم کرنے پر خصوصی زور دیا اور ہمیں سول اداروں سمیت ملک میں تعیناتیوں میں میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔

'میڈیا کی آزادی'

انہوں نے کہا کہ میں اس ایوان کی توجہ میڈیا کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور تشدد کے واقعات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور میں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم صاحب کو خط بھی لکھا، میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا کو ہراساں کرنے سے پاکستانی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچے گا، میرے خط میں تمام صحافیوں کا نام لینا ممکن نہیں تھا مگر میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا اور صحافیوں کا تحفظ اور ان کی آزادی یقینی بنانا ہم سب کی اجتماعی اور آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے، ہمارا آئین آزادی صحافت کی یقینی دہانی کراتا ہے اور تنقید کرنے کی بھی آزادی دیتا ہے، صحافت کے اندر سچائی کو بھی پروان چڑھنا چاہیے، زرد صحافت کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے مگر ہر چیز کو اس کھاتے میں بھی نہیں ڈالنا چاہیے۔

'عدالتوں نے غلط فہمی کی بنیاد پر دو سال تک یوٹیوب بند رکھا'

صدر مملکت نے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، یہ ایک بہت بڑا فورم ہے جس کو بند نہیں کیا جا سکتا، ہماری عدالتوں نے غلط فہمی کی بنیاد پر دو سال تک یو ٹیوب کو بند رکھا، ایسے اقدامات سے معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا، ٹیکنالوجی پر پابندی لگانے اور سوشل میڈیا میں نوجوانوں اور بچوں کے خلاف کاروائی کرنا مسائل کا حل نہیں مگر ہم ان فورمز پر پائی جانے والی فیک نیوز اور غیبت کے حوالے سے لوگوں کو تعلیم دیں اور انہیں اصل اور فیک نیوز میں فرق جاننے کے لیے تعلیم دینا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جدید دور کے مسائل کو پابندیاں لگا کر اور لوگوں کے خلاف کاروائی کر نے کے فرسودہ اور پرانے طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا، ٹیکنالوجی کے فائدے کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں اور ہمیں اس کے منفی اور مثبت پہلووں کو بخوبی سمجھنا ہوگا۔

'غیبت اور فیک نیوز'

ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر میں ایک اہم موضوع پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں جس کا میں نے گزشتہ سال بھی ذکر کیا، غیبت اور فیک نیوز کے حوالے سے میں نے اس ایوان کے سامنے قرآن کی آیات پیش کیں تھیں، میں ان دونوں چیزوں کو بہت تباہ کن سمجھتا ہوں اور قرآن میں غیبت کو بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیبت سوشل میڈیا اور واٹس ایپ جیسی ایپس کے ذریعے فروغ پارہی ہے، ہم اپنی پسند اور تعصب کے اعتبار سے معلومات کو بغیر تصدیق کے آگے بھیج دیتے ہیں، سیاق و سباق سے ہٹ کر بات بتانا اور پھیلانا بھی غیبت کے زمرے میں آتا ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ موقع و محل کے اعتبار سے انسان کے بات کرنے کے انداز اور الفاظ کے چناؤ میں فرق ہوتا ہے اور اگر ان عناصر کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر میری دوستوں سے کی ہوئی کوئی بات میری ماں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی جائے تو انہیں بھی اس پر بہت افسوس ہوتا۔

'آڈیو لیکس معاملہ'

عارف علوی نے کہا کہ آج کل آڈیو لیکس سامنے آئی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے، یہ ایک انتہائی سنگین پیش رفت ہے اور اس پر ہنگامی بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے، فریقین میں سے کسی ایک کی رضامندی کے بغیر فرد کے درمیان نجی گفتگو کو عام کرنا اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے، یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یہ رحجان جاری رہا تو اہم سرکاری دفاتر میں کھل کر کوئی بھی بات نہیں کر سکے گا، میں خفیہ انداز سے ریکارڈ کی ہوئی آڈیو لیکس کو نہ ہی سنتا ہوں اور نہ ہی انہیں اہمیت دیتا ہوں، جو لوگ ایسی گفتگو کو اہمیت دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ کم از کم اس امر کا ضرور خیال رکھیں کہ قومی راز عیاں نہ ہوں، سیاق و سباق سے ہٹ کر گفتگو ہمیشہ غلط تصور کی جاتی رہی، کفار نے قران کی آیات اور احادیث نبوی کو اس ہی مد میں لوگوں کو گمراہ کیا۔

صدر مملکت نے مزید کہا کہ ہمیں سیاق و سباق اور موقع و محل کا خیال رکھ بہت ساری گفتگو کوسمجھنا چاہیے، ہر چیز کو پکڑ لینا ، زیر بحث لانا اور اس پرجھگڑا کرنا مناسب نہیں، بہت سی باتیں دوسرے لوگوں کے کانوں کے لیے نہیں ہوتیں، خاندان کے افراد کے ساتھ کی گئی گفتگو بھی اسی زمرے میں آتی ہے اور ایسی گفتگو کو عام کرنا بھی مناسب نہیں ہے اور اگر کر دیا جائے تو کتنا قابل افسوس عمل ہوگا۔

'سفارتی تعلقات'

خارجہ امور پر گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے ملک میں مثبت رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے، چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے سدا بہار ، دیرینہ اور پائیدار تعلقات ہیں، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات 60 کی دہائی سے بڑے متوازن انداز سے استوار ہیں، ہمارے تعلقات کی بنیاد صرف مفادات نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہیں، چین کے ساتھ ہمارا بہترین تعاون ہے اور یہ مستقبل میں بھی جاری رہیں گے ۔

عارف علوی نے کہا کہ امریکا ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اور دیرینہ دوست ہے ، 50 اور 60 کی دہائی سے شروع ہونے والے اس تعلق کو ہم مزید جاری رکھنے کے خواہاں ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاک -امریکا تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں اور میں یہاں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم تمام ممالک کے ساتھ باہمی وقار اور عزت و احترام پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ یورپ بھی ہمارا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جی ایس پی پلس کے حوالے سے پاکستان اور یورپی ممالک کے مابین تعاون جاری رہے گا، ہم یورپ کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے حامل ہیں اور پاکستان نے افغانستان سے افواج کے انخلا کے دوران بھی خدمات اور راہداری فراہم کی اور ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور یورپ کے تعلقات کو مزید تقویت ملے گی۔

سعودی عرب پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا اور انہوں نے ہمیں فنڈز کی فراہمی بھی یقینی بنائی، حرمین شریفین کی سیکورٹی اور تحفظ کے لیے ہم اپنی جانیں بھی دے سکتے ہیں ۔

انہوں نے پاکستان ترکیہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ باہمی احترام، خلوص اور قریبی تعاون کی تاریخ کے حامل ہیں جس کی بنیاد مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی میراث ہے، پاکستانی ترکیہ دوستی حالیہ نہیں بلکہ تاریخی ہے اور 19 صدی کے اواخر میں بھی یہاں سے ترکیہ میں زلزلے اور جنگ کے سلسلے میں امداد فراہم کی جاتی رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھی پاکستان کے بہترین تعلقات ہیں، ان ریاستوں میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے جنہوں نے ان ریاستوں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، ہم خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، دوستانہ، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پرامن افغانستان ہمارے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے، ہم افغانستان میں پائیدار امن اور اس کے استحکام کے خواہاں ہیں کیونکہ افغانستان میں قیام امن کا پاکستان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہم افغانستان کو اپنے خطے کے لیے تجارتی اور توانائی کے رابطے کے راستے کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، پاکستان ہمیشہ کی طرح اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ آپ سب کی کاوشوں کی بدولت ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل جائیں گے ۔

'پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے'

عارف علوی نے کہا کہ میں بھارت کے حوالے سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ بھارت کے ساتھ دوستی اور امن ہو، مگر یہ خواہش بھارت کے کشمیر میں اقدامات کی وجہ سے پروان نہیں چڑھ سکتی، کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تمام معاملات خصوصاً کشمیر کے مسئلے پر گفتگو ہونی چاہیے، پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ساتھ کھڑا رہے گا۔

مزید پڑھیں: صدر عارف علوی امریکا اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں

عارف علوی نے کہا کہ تقسیم کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمان ہندوتوا کی وجہ سے خود کو علیحدہ محسوس کر رہے، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ سرکاری سطح پر اور ان کے زیر سایہ کارروائیاں ہوتی ہیں، اس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ بھارتی معاشرے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ نقصان خود ہندوستان اپنے آپ کو پہنچا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جینوسائڈ واچ کے مطابق جینوسائڈ (نسل کشی) کی دس سٹیجز ہیں اور بھارت آٹھویں اسٹیج تک پہنچ چکا ہے مگر خطرناک بات یہ ہے کہ اب یہ معاملہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے اثرات دوسرے ممالک تک پہنچ رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے اتحاد ، تنظیم اور ایمان کی اہمیت پر خصوصی زور دیا مگر افسوس کہ ہم نے اتحاد کو تقسیم کی نظر کر دیا، یہ بات تاریخی طور پر طے ہے کہ صرف متحد قومیں ہی آزمائشوں سے نکل سکتی ہیں اور متحد قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ قائد اعظم نے یہ بات 75 سال پہلے صرف عوام کے لیے ہی نہیں کہی تھی بلکہ ہمارے رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ قوم کے اندر اتحاد پیدا کریں اور انہیں آپس میں جوڑیں ۔

'پاکستان میں تقسیم کی وجہ سوشل میڈیا ہے'

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کے اندر جو تقسیم (پولرائزیشن) ہے اس کی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی ہے ،ہمیں اس پولرائزیشن سے گریز کرنا ہوگا، یہ ایک خوش آئند امر ہے بہت سے لوگوں نے بیانات دیے کہ تقسیم نہیں ہونی چاہیے اور بات چیت ہونی چاہیے، لہذا بے انتہا ضروری ہے کہ اس پولرائزیشن یا تقسیم کو ختم کیا جائے اور اس معاملے میں اپنی دانست میں کوشش کرتا رہتا ہوں اور کرتا رہوں گا ۔

' نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے'

انہوں نے کہا کہ کرپشن کے مسئلے پر نیب کو مضبوط کرنا چاہیے، اس میں ایک تو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور دوسرا اسے دوسروں پر ظلم اور ناانصافی کے لیے استعمال نہ کیا جائے یہ بات بھی طے ہے کہ دنیا کرپشن کے جرم کو دیگر جرائم کی طرح نہیں دیکھتی۔

عارف علوی نے کہا کہ سوئٹزر لینڈ اور برطانیہ کے قوانین میں بھی یہ چیزیں موجود ہیں کہ وائٹ کالز کرائم کی صورت میں ملزم کو اس بات کا ثبوت دینا ہوتا ہے کہ اسکے پاس دولت کہاں سے آئی ۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن کی بیخ کنی کرنے کے موضوع پر سب متفق ہیں ہمارے سامنے حضرت عمر فاروق کی بھی مثال موجود ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس دو چادریں کہاں سے آئیں تو سوال کرنے والے نے یہ نہیں کہا کہ میں یہ ثابت کر رہا ہوں کہ یہ دو چادریں آپ نے غلط طریقے سے حاصل کیں بلکہ اس نے صرف یہ پوچھا کہ دو چادریں کہاں سے آئیں؟ اور حضرت عمر نے اس کا جواب دیا اور ان چادروں کا ذریعہ بیان فرمائی۔

انہوں نے کہا کہ مقننہ اتنی محنت سے قانون بناتی ہے اور بعض اوقات اس قانون کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے، میں اپنی مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں میرے خلاف دہشت گردی کا الزام لگا کہ یہ بندوقیں سپلائی کرتا تھا، آپ ذرا سوچیں کہ دہشت گردی کے خلاف استعمال کرنے کے لیے لائے گئے قانون کو جب سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا تو یہ ایسا ہی ہو گا کہ مچھر مارنے کے لیے توپ کا استعمال کیا جائے تو یہ قانون کا صحیح استعمال نہیں۔

عارف علوی نے کہا کہ اس قانون کو توڑ مڑورکر ہر جگہ استعمال کرنا ٹھیک نہیں۔،آپ نے دیکھا کہ توہین رسالت کے قوانین کا بھی جب غلط استعمال یا تشریح ہوتی ہے تو اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا، میری گزارش ہے کہ قوانین کو ان کے صحیح سیاق و سباق کے مطابق استعمال کیا جائے ۔

'یہ سال انتخابات کا ہے'

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے سب سے بہترین حل منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے، یہ سال انتخابات کا سال ہے تاہم انتخابات کا منعقد کرانا ایک سیاسی فیصلہ ہے۔
صدر نے کہا کہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کرلیں، سیاسی قیادت کے مابین اس معاملے پر چند مہینے کا اختلاف ہے جس کا حل باہمی مشاورت سے ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ الیکشن کے معاملے کو آپ سب مل بیٹھ کر طے کرلیں تو موجودہ تقسیم اور سیاسی صورتحال کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔

'الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے انتخابات شفاف انداز میں ہو سکتے ہیں'

الیکٹرونک ووٹنگ مشین پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پارلیمنٹ کے اندر اس پر میں نے ایک متفقہ دستاویز پیش کی تھی جس پر پارلیمنٹ کی کمیٹی میں یہ بحث ہوئی کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مدد سے کیسے انتخابات شفاف انداز میں ہو سکتے ہیں اور اس معاملے پر پارلیمنٹ کی کمیٹی ، جس کو میں نے چیئر کیا تھا اس نے یہ طے کیا کہ اس کو بہتر کر کے لانچ کر دیا جائے مگر یہ آج تک نہیں ہوا، لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ الیکشن کے دن شفافیت کے لیے یہ مشین ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای وی ایم مشین پیچھے نہیں دیکھ سکتی کہ الیکشن سے پہلے کیا ہوا ، کس کو ووٹ ڈالنے کے لیے کس نے مجبور کیا، یہ مشین صرف الیکشن کے دن اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوں اور اس میں پیپر کا بیلٹ بھی موجود ہے، لہٰذا ، میں چاہتا ہوں کہ اس طرف آپ توجہ دیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو اپنائیں، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے بہت سے جرائم کو روکا جا سکتاہے، ڈی این اے کی وجہ سے ریپ کے واقعات پکڑے جا سکتے ہیں یہ ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم دیگر شعبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے انکار کریں ۔

عارف علوی نے کہا کہ میں سمندر پار پاکستانیوں کا مشکور ہوں کہ وہ اپنی محنت سے کمائی گئی رقوم پاکستان بھیجتے ہیں، ان کے ووٹ کا حق سپریم کورٹ نے بھی قبول کر لیا ہے، لوگ انہیں اکثر یہ طعنہ دیتے اگر آپ کو پاکستان سے اتنی ہی محبت ہے تو آپ وطن واپس کیوں نہیں لوٹ آتے یہ باتے کرتے ہوئے ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ تقریباً 90 فیصد سمندر پار پاکستانی محنت ، مزدوری اور روزگار کی مجبوری کی وجہ سے باہر جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ روزگار کے سلسلے میں باہر مقیم ہیں ان کو ووٹ کے لیے سہولت فراہم کرنے کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، تو اس بات کے لیے حکومت بھی احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس کوشش کو کو اختتام تک پہنچانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے جو باتیں آپ کے سامنے رکھی ہیں ان میں کوشش یہ کی ہے کہ پاکستان کی ترقی اور پاکستان کے مستقبل کے اعتبار سے آپ سے گفتگو کر سکوں، میرا ایمان ہے یہ قوم بڑی طاقتور ہے، آپ نے جس انداز سے بین الاقوامی سطح پر اپنا رویہ رکھا ، آپ کے اندر بڑی سخاوت موجود ہے، آپ نے افغان مہاجرین کو ملک میں پناہ دیے رکھی، آپ نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا، جب بھی ضرورت پڑی تو آپ نے دل کھول کر مدد کی۔

صدر نے کہا کہ پاکستانی قوم کے اندر بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور اس صلاحیت سے پورا فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں قائد اعظم کی کہی ہوئی باتوں کو مدنظر رکھنا ہوگا اور ہمیں پاکستان کی ترقی کے لیے بچوں کو تعلیم اور صحت دے کر ، اس ملک کو مستحکم اور طاقت ور بنا کر اور غریبوں کا خیال رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ایسا کرنے کی صلاحیت اس قوم میں موجود ہے، یہ مٹی سونا ہے اور یہاں کے لوگ کندن ہیں ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں