خاتون جج دھمکی کیس میں عمران خان کی سیشن کورٹ آمد، درخواست ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2022
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سیشن جج کامران بشارت مفتی کی عدالت میں پیش ہوئے — فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سیشن جج کامران بشارت مفتی کی عدالت میں پیش ہوئے — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف دھمکی آمیز بیان پر درج مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی مستقل ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔

اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن عدالت کے جج کامران بشارت مفتی نے عمران خان کی دو مقدمات میں عبوری ضمانتوں کی درخواست پر سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر اسد عمر بھی سابق وزیر اعظم کے ہمراہ بھی موجود تھے۔

عمران خان کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان اور پراسیکیوٹر واجد منیر، تھانہ مارگلہ میں درج مقدمے کے تفتیشی انسپکٹر محمد علی اور تھانہ کوہسار کے مقدمے کے تفتیشی سب انسپکٹر اعجاز احمد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کی سیشن کورٹ آمد، 13 اکتوبر تک ضمانت منظور

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کے خلاف 2 مقدمات درج ہیں، تھانہ کوہسار میں درج مقدمے میں تمام ملزمان کی ضمانتیں منظور ہو چکی ہیں۔

جج نے استفسار کیا کہ پراسیکیوٹر واجد منیر کیا کہتے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ تھانہ کوہسار میں درج مقدمے میں دفعہ 505 لگی ہے جو ناقابل ضمانت ہے، جج نے استفسار کیا کہ الزام کیا لگا ہے، پراسیکیوٹر نے بتایا کہ انہوں نے اشتعال انگیز بیان دیا ہے۔

اس دوران عدالت نے تھانہ کوہسار میں درج مقدمے میں عمران خان کی ضمانت کنفرم کردی۔

وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ تھانہ مارگلہ میں بھی مقدمہ درج ہے، اس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعہ لگی تھی جو ہائی کورٹ نے ختم کردی، عمران خان نے بیان دیا تھا کہ آئی جی، ڈی آئی جی تمہیں نہیں چھوڑیں گے، کیس کریں گے۔

مزید پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ دھمکی کیس: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ شہباز گل کو گرفتار کر کے ننگا کیا گیا، تشدد کیا گیا اس پر عمران خان نے کہا تھا کیس کریں گے۔

پراسیکیوٹر واجد منیر نے کہا کہ عمران خان نے سرکاری ملازمین کو دھمکیاں دیں، جج نے استفسار کیا کہ یہ جلسہ کدھر ہو رہا تھا، ایف نائن پارک میں جلسہ ہو رہا تھا پھر دفعہ 144 کیسے لگی، اس مقدمے میں 506 ٹو تو نہیں لگی، عمران خان کے خلاف درج مقدمے میں قابل ضمانت دفعات ہیں۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے خاتون جج کو دھمکی دینے کے دوسرے مقدمے میں بھی عمران خان کی ضمانت کنفرم کردی۔

عدالت نے تھانہ مارگلہ میں درج مقدمے میں 5 ہزار اور تھانہ کوہسار میں 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض سابق وزیر اعظم کی ضمانت منظور کی جس کے بعد عمران خان ضلع کچہری سے روانہ ہوگئے۔

قبل ازیں، جج دھمکی کیس میں عمران خان کے ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے جاسکتے تھے، پی ٹی آئی کے وکلا نے نقد 5 ہزار روپے جمع کرانے کی درخواست دی تھی جب کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر 50 ہزار روپے مچلکوں پر ضمانت آج تک کے لیے منظور کی تھی۔

عمران خان کی 6 اکتوبر کو سیشن جج کامران بشارت مفتی نے آج تک کے لیے ضمانت منظور کی تھی، پی ٹی آئی وکلا نے 5 ہزار روپے نقد جمع کرانے کی استدعا کی جس پر جج نے حکم دیا کہ 5 ہزار روپے نہیں، 50 ہزار روپے ہی جمع کرائے جائیں۔

جج کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عمران خان کے وکلا نے 50 ہزار روپے کے نقد ضمانتی مچلکے عدالت میں جمع کرا دیے تھے۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب میں اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

یہ بھی پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: 'شاید ریڈ لائن کراس کردی، معافی مانگنے کو تیار ہوں'

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

اس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: عمران خان معذرت کرنے کیلئے خاتون جج زیبا چوہدری کی عدالت پہنچ گئے

تھانہ مارگلہ میں 20 اگست کو درج مقدمے میں عمران خان کے خلاف دفعہ 504/506 اور 188/189 لگا ئی گئی تھیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے کا حکم

بعد ازاں 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج دھمکی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ خارج کرنے کا حکم دیا تھا تاہم حکم میں کہا گیا تھا کہ دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان خاتون جج سے معافی مانگنے کو تیار، فرد جرم کی کارروائی مؤخر

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی تھی اور وکلا کے دلائل کے بعد فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے آج (یکم اکتوبر) ڈسٹرکٹ ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع کرادیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں بطور چیئرمین تحریک انصاف گزشتہ 26 سال سے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کے احترام اور آزادی کے جدوجہد کررہا ہوں اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے برعکس میں نے ہمیشہ ہر عوامی اجتماع میں قانون کی حکمرانی کی بات کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں کیس کی کارروائی کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاید میں نے 20 اگست 2022 کو عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کردی۔

انہوں نے کہا کہ میرا مقصد کبھی ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جزز کو دھمکی دینا نہیں تھا نہ ہی اس بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کے سوا کےکوئی ارادہ تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جج کے سامنے یہ وضاحت کرنے کو تیار ہوں کہ نہ میں نے اور نہ میری پارٹی نے معزز جج کے خلاف کسی کارروائی کی درخواست کی اور اگر جج کو یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر میں نے لائن کراس کردی تھی تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں