اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کےخلاف حکومت کی سپریم کورٹ میں درخواست

14 اکتوبر 2022
درخواست میں استدعا کی گئی کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے طرز عمل اور منصوبوں کا جائزہ لیا جائے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
درخواست میں استدعا کی گئی کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے طرز عمل اور منصوبوں کا جائزہ لیا جائے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

وفاقی حکومت نے ایسے وقت میں کہ جب سیلاب متاثرین کو فوری امداد کی ضرورت ہے سابق وزیراعظم عمران خان کو ممکنہ لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف ’جہاد‘ کے نام پر امن و امان کی صورتحال خراب کرنے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کے 25 مئی کے احکامات کو مبینہ طور پر نظر انداز کرنے پر چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توہین عدالت کا الزام بھی لگایا۔

جب بھی عدالت عظمیٰ اس کیس کی سماعت کرے گہ حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل کے دفتر سے کیے جانے کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا ممکنہ لانگ مارچ: عمران خان کو نظر بند کرنے کا منصوبہ تیار

مئی کے حکم میں، درخواست میں یاد دلایا گیا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور یہ کہ ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے چلائی جائے گی، پی ٹی آئی کو سیکٹر H-9 اور G-9 کے درمیان واقع گراؤنڈ میں ایک اجتماع منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔

توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی لانگ مارچ کے دوران اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کا فیصلہ

درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ کو مستقبل میں وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع رہنما خطوط بھی جاری کرنے چاہئیں جن میں تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی زندگی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کی یقین دہانی اور اس بات کو یقینی بنانے کا عزم شامل ہونا چاہیے کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

حکم امتناع کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف اپنی تقریروں میں اپنایا ہوا لہجہ ’انتہائی اشتعال انگیز‘ تھا، جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔

پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا پی ٹی آئی لانگ مارچ کے خلاف طاقت کے مکمل استعمال کا فیصلہ

درخواست میں مزید کہا گیا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔

درخواست میں مزید روشنی ڈالی گئی کہ ملک اس وقت ایک بے مثال قدرتی آفت سے نمٹ رہا ہے جس نے جانوں، فصلوں اور بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا جس سے پہلے سے ہی کمزور معیشت پر شدید دباؤ پڑا۔

حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہو جائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہو جائے گی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی لانگ مارچ: صوبوں نے شرکت کی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، وزیر داخلہ

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے موجودہ طرز عمل اور منصوبوں کا جائزہ لیا جائے، گزشتہ چند ہفتوں سے عمران خان اپنی تقاریر اور میڈیا انٹرویوز کے ذریعے اپنے پارٹی کارکنوں اور حامیوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے لیے تیار کر رہے ہیں۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مارچ اور احتجاج کو ’جہاد‘ قرار دے کرعمران خان عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔

پٹیشن میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ’جہاد کی یہ کال ایک پارٹی اور اس کے رہنما کی طرف سے ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو یہ قبول نہیں کر سکتی کہ اسے آئینی طریقے سے حکومت سے نکالا گیا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں