سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی میں ناکامی، اراکین قومی اسمبلی کی این ڈی ایم اے پر تنقید

14 اکتوبر 2022
اراکین اسمبلی نے امدادی محکموں سے متاثرہ علاقوں میں کارروائیوں میں موثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا—فوٹو: ڈان نیوز
اراکین اسمبلی نے امدادی محکموں سے متاثرہ علاقوں میں کارروائیوں میں موثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا—فوٹو: ڈان نیوز

اراکین قومی اسمبلی نے صوبوں کی مقامی انتظامیہ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اداروں کو ملک کے حالیہ تباہ کن سیلاب سے نمٹنے میں ان کی مبینہ ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان سے متاثرہ علاقوں میں جاری امدادی کارروائیوں میں موثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں سیلاب سے پیدا صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت میں شامل قانون سازوں نے بھی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور اس کے صوبائی محکموں کی کارکردگی پر تنقید کی اور کچھ اراکین نے ان اداروں کے خاتمے تک مطالبہ کردیا۔

بحث کے دوران ارکان اسمبلی نے ایک بار پھر وزرا کی ایوان سے مسلسل غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کیا جب کہ ایوان کا کورم بھی پورا نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: ملالہ یوسف زئی کا دروہ جوہی، سیلاب متاثرہ خواتین اور بچوں سے ملاقات

وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی کابینہ کے واحد رکن تھے جو زیادہ تر وقت ایوان میں موجود رہے، جب ڈپٹی اسپیکر زاہد درانی نے اجلاس ملتوی کیا تو پارلیمنٹ کے 342 رکنی ایوان زیریں میں صرف 2 ارکان موجود تھے۔

کئی اراکین اسمبلی نے حکومت کے اس مؤقف پر تنقید کی کہ موسمی حالات میں تبدیلیوں کی وجہ سے ملک کو بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، ان کا خیال تھا کہ اگر محکمے اور متعلقہ حکام بروقت رد عمل دیتے تو نقصان کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا تھا۔

اپوزیشن گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے غوث بخش مہر نے کہا کہ حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو وزارتیں مل چکیں اور یہ وزرا دفاتر سے نکل کر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

غوث بخش مہر نے الزام لگایا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ایسے وقت میں بھی سیاست نہیں چھوڑی جب کہ ملک تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کیے لیکن اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات نہیں کی۔

مزید پڑھیں: عالمی بینک نے سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 40 ارب ڈالر لگایا ہے، شیریٰ رحمٰن

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سندھ اور بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں، اس ملک کو مزید تقسیم نہ کریں جو پہلے ہی بہت تقسیم ہوچکا۔

جی ڈی اے کی ایک اور رکن سائرہ بانو نے کہا کہ اراکین اسمبلی خالی کرسیوں سے صرف اس لیے خطاب کر رہے ہیں تاکہ تقاریر پر فیس بک اور ٹوئٹر پر ’لائکس‘ حاصل ہوں، انہوں نے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت پر سخت تنقید کی اور کہا کہ صوبے میں ایک بھی ماڈل ٹینٹ ویلج موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں نے سندھ حکومت کی گزشتہ 14 سالہ کارکردگی کا پردہ فاش کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کیلئے فنڈز کی کمی، حکومت ماحولیاتی تبدیلی کیلئے مختص فنڈ استعمال کرنے پر مجبور

سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے منحرف رکن میر محمد خان جمالی نے الزام لگایا کہ بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے وزیر اعظم شہباز شریف کے دوروں کے موقع پر انتظامیہ نے مصنوعی امدادی کیمپ لگائے اور ان کے جاتے ہی وہ کیمپ ہٹادیے گئے۔

میر محمد خان جمالی نے کہا کہ اس دوران بیوروکریٹس نے بھی منتخب نمائندوں کو اہمیت نہیں دی اور بلوچستان جعفرآباد کے ان کے حلقے کے ڈپٹی کمشنر نے بھی ان کی ٹیلی فون کالز یا واٹس ایپ میسجز کا جواب نہیں دیا۔

پی ٹی آئی کی ایک اور ناراض رکن نزہت پٹھان نے الزام لگایا کہ سندھ میں تحصیل انتظامیہ کے حکام بلیک میلر بن چکے۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار ممالک سے بھیک مانگنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے‘

پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی ایم این اے شاہدہ رحمانی نے تجویز دی کہ سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے این ڈی ایم اے کے بجائے اسپیکر کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما صابر قائم خانی نے کہا کہ جب صوبے میں سیلاب آیا تو سندھ کے مختلف اداروں کے درمیان کوئی ہم آہنگی اور رابطہ نہیں تھا اور مقامی انتظامیہ کہیں نظر نہیں آئی۔

تبصرے (0) بند ہیں