ایف بی آر کے ’فلیگ شپ پروجیکٹ‘ میں 51 ارب 60 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی

15 اکتوبر 2022
ایف بی آر نے روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی لیکن آڈیٹرز نے جواب قبول نہیں کیا—فائل فوٹو: ایف بی آر ٹوئٹر
ایف بی آر نے روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی لیکن آڈیٹرز نے جواب قبول نہیں کیا—فائل فوٹو: ایف بی آر ٹوئٹر

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ایک آڈٹ میں بغیر ٹینڈر کے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کو دیے گئے فلیگ شپ پروجیکٹ میں 51 ارب 60 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 22-2021 کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق انجینئرنگ پروکیورمنٹ اینڈ کنسٹرکشن (ای پی سی) کی بنیاد پر نیشنل لاجسٹک سیل کو طورخم بارڈر کراسنگ پوائنٹ کے لیے ’وسطی ایشیا علاقائی اقتصادی تعاون، ریجنل امپروونگ بارڈر سروسز پروجیکٹ، سے متعلق ٹھیکا دینے میں 35 ارب 8 کروڑ روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں ہوئیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ایف بی آر نے مسابقتی بولی کے عمل کے بغیر کام براہ راست این ایل سی کو دیا اور بولی کی شرحوں کا موازنہ کرنے کے لیے تفصیلی تخمینے اور شرح کے تجزیے کے بغیر این ایل سی کی بولی قبول کر لی‘۔

یہ بھی پڑھیں: دو درجن سے زائد سرکاری اداروں کا آڈٹ کرانے سے انکار

ایف بی آر نے آڈٹ اعتراض کے جواب میں کہا کہ پروجیکٹ کو ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے اور اس لیے پی پی آر اے (پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی) کے قواعد لاگو نہیں ہوتے ہیں ان کی جگہ اے ڈی بی کی پروکیورمنٹ پالیسی نے لی ہے۔

تاہم آڈیٹر جنرل آفس نے ایف بی آر کے جواب کو مسترد کر دیا، آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ ایف بی آر نے کانٹریکٹر کو بغیر تصدیق کے 10 ارب 49 کروڑ روپے کی رقم ادا کی۔

مزید کہا گیا کہ اس کے لیے نگران افسر کو سائٹ پر ڈیٹا کے حساب سے سرگرمیاں ریکارڈ اور لازمی جانچ کرنی ہوتی تاہم کانٹریکٹر کو کام کی تفصیلی پیمائش ریکارڈ کیے اور کام کی درستگی کی حمایت میں مختلف سطحوں پر انجینئرز کے تجویز کردہ چیک کے بغیر کام کے حجم کی ادائیگی کردی گئی۔

مزید پڑھیں: تمام امداد کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے گا، وزیر اعظم کی عطیہ دہندگان کو یقین دہانی

رپورٹ میں ’تعمیراتی لاگت میں ضرورت سے زیادہ اجزا‘ شامل کرنے کی وجہ سے ایک ارب 76 کروڑ روپے کی ’غیر منصفانہ ادائیگی‘ کی بھی نشاندہی کی گئی۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے اضافی رقم، ایسکلیشن پیمنٹ سرٹیفکیٹ کے بغیر ادا کی۔

آڈٹ نے ایک ارب 35 کروڑ روپے کی ’اضافی ادائیگی‘ کا بھی مشاہدہ کیا جو منصوبے کے پی سی ون کی فراہمی سے باہر تھا۔

ایف بی آر نے ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی لیکن آڈیٹرز نے جواب قبول نہیں کیا اور کہا کہ ’منصوبے کے مختلف حصوں میں اخراجات قابل اجازت حد سے تجاوز کر گئے ہیں، جس کے لیے مجاز فورم کی منظوری درکار تھی‘۔

یہ بھی پڑھیں: اربوں روپے کی ٹیکس چوری، تمباکو کے شعبے کے خصوصی آڈٹ کا حکم

آڈٹ رپورٹ میں عارضی رقم کی مد میں کانٹریکٹر کو 91 کروڑ 50 لاکھ روپے کی ادائیگی کو بلاجواز قرار دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق یہ رقم پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ نے بغیر سپورٹ اکاؤنٹس، رسیدوں، واؤچرز وغیرہ کے لیبارٹریوں کے قیام، یوٹیلیٹیز کی شفٹنگ، انوائرمنٹ مینجمنٹ پلان، سیکیورٹی پلان اور موجودہ عمارت کو مسمار کرنے کے لیے ادا کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایف بی آر نے کانٹریکٹر سے 78 کروڑ 15 لاکھ روپے کا انکم ٹیکس نہیں کاٹا جس پر ایف بی آر نے جواب دیا کہ این ایل سی کو ودہولڈنگ انکم ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ (ایف بی آر) کا جواب قبول نہیں کیا گیا کیونکہ ود ہولڈنگ ٹیکس بولی کی شرحوں میں شامل تھا، مزید برآں ٹھیکے کے معاہدے میں شامل ذیلی ٹھیکیدار بھی انکم ٹیکس ادا کرنے کے ذمہ دار تھے’۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی اسٹاف کے لیے کانٹریکٹر کو ادا کی گئی 47 کروڑ 80 لاکھ روپے کی رقم بھی بلاجواز تھی، یہ رقم طورخم اور چمن سرحدوں پر بالترتیب 124 اور 146 سیکیورٹی اہلکاروں کو ادا کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق ’کنسلٹنٹ نے رپورٹ کیا کہ طورخم بارڈر پر صرف 20 اہلکار سیکیورٹی کے لیے تعینات کیے گئے تھے جب کہ این ایل دی نے دونوں کاموں کے لیے اہلکاروں کی کوئی تفصیل شیئر نہیں کی۔‘

تبصرے (0) بند ہیں