جو بائیڈن مظاہرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایرانی صدر

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2022
ایرانی صدر نے کہا لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کے ذریعے دشمن کی سازش کا مقابلہ کیا جانا چاہیے— فائل فوٹو: رائٹرز
ایرانی صدر نے کہا لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کے ذریعے دشمن کی سازش کا مقابلہ کیا جانا چاہیے— فائل فوٹو: رائٹرز

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے امریکی ہم منصب جو بائیڈن پر مہسا امینی کی ہلاکت پر ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کی پشت پناہی اور افراتفری پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر مظاہرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ابراہیم رئیسی نے مرحوم آیت اللہ روح اللہ خمینی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’امریکی صدر کے بے بنیاد، افراتفری اور دہشت گردی کے الزامات دوسرے ملک کی تباہی کا سبب بنتے ہیں جو مجھے اسلامی جمہوریہ کے بانی کے الفاظ کی یاد دہانی کراتے ہیں جنہوں نے امریکا کو شیطان قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران: مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف انٹرنیٹ معطلی کے باوجود مظاہروں میں شدت

انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کے ذریعے دشمن کی سازش کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ 16 ستمبر سے ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کو حجاب ٹھیک سے نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے گرفتار کرلیا تھا، مہسا امینی کی گرفتاری کے 3 دن بعد ان کی موت ہوگئی تھی جس کے بعد سے ملک بھر میں پولیس کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

احتجاج کے دوران پُرتشدد واقعات میں مظاہرین اور سیکیورٹی افسران سمیت درجنوں افراد کی موت بھی واقع ہوئی اور سینکڑوں مظاہرین گرفتار ہوئے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے 14 اکتوبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہم ایران کی بہادر خواتین کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔

امریکی صدر نے کہا تھا کہ ایران میں اتنی بڑی بیداری پر حیران ہوگیا ہوں، یہ ایسی بیداری ہے جس کا میں نہیں سوچتا تھا، اس نے ایران کو ایسا بیدار کردیا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اب زیادہ دیر تک خاموشی طاری رہ سکے گی۔'

مزید پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر ایران بھر میں پُرتشدد مظاہرے، 3 افراد ہلاک

16 اکتوبر کو ایران کے وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے جو بائیڈن کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ساتھ مل کر ایران کی آزادی کا دفاع کریں گے۔

6 اکتوبر کو امریکی صدر نے ایران میں کریک ڈاؤن میں ملوث 7 ایرانی اعلیٰ عہدیداروں پر پابندی عائد کردی تھی۔

گزشتہ ماہ امریکی نے ایران کی اخلاقی پولیس پر بھی سخت پابندیاں عائد کی تھیں۔

ایران پر ثقافتی حملہ

ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا کی ہلاکت اور مظاہروں کے بعد ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ نے مغربی ممالک پر ایران کی ثقافت اور تہذیب پر حملے کرنے کا الزام لگایا تھا۔

کُرد خاتون (مہسا امینی) کی ہلاکت کے بعد مظاہروں میں مظاہرین اور سیکیورٹی افسران سمیت درجنوں افراد کی موت ہوئی تھی جبکہ ملک بھر کے اسکولوں میں احتجاج اب بھی جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

میجر جنرل حسین سلامی نے گارڈ سیفن نیوز ویب سائٹ پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں مظاہرے اور فساد امریکا اور برطانیہ کے تِھنک ٹانک کی حکمت عملی نے ایرانی اسکولوں میں پھیلائے۔

انہوں نے کہا کہ ’آج ہمارے دشمن ملک نے ثقافت، سیاست اور سیکیورٹی پر حملہ کیا ہے، امریکا نے خواتین کے اسکارف اتارنے کا رواج شروع کیا جس کے بعد انہوں نے کوشش کی کہ مسلم ممالک میں بھی مغربی ثقافتی رہن سہن کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے۔

اقوام متحدہ چلڈرن فنڈ (یونیسیف) نے کہا تھا کہ ’ایران میں بچوں اور نوعمر افراد کی گرفتاری، موت اور پُرتشدد واقعات پر شدید تشویش ہے‘۔

ایران کے وزیر تعلیم یوسف نورانی نے 16 اکتوبر کو مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسکول کے بچوں کی گرفتاری کی تردید کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں