سندھ کے ’ماما‘ کہلانے والے شاعر جمن دربدر انتقال کر گئے

20 اکتوبر 2022
جمن دربدر کو لوگ پیار سے ’ماما‘ بلاتے تھے—فائل فوٹو: ٹوئٹر
جمن دربدر کو لوگ پیار سے ’ماما‘ بلاتے تھے—فائل فوٹو: ٹوئٹر

سندھ کے معروف ڈراما نگار،فنکار اور شاعر جمن دربدر عمرکوٹ میں انتقال کر گئے، انہیں سندھ کا ’ماما‘ بھی کہا جاتا تھا۔

سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے ضلع عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے محمد جمن ساند المعروف ’جمن دربدر‘ 78 برس کی عمر میں اپنے گاؤں روحل واء میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔

سندھ میں ’محبت و انقلاب‘ کی شاعری کرنے والے جمن دربدر کے انتقال پر سندھ کی قومپرست جماعتوں، ادیبوں، سیاسی و سماجی رہنماؤں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

جمن دربدر 12 مئی 1944 کو عمر کوٹ ضلع کے روہل واء میں عبدالرشید ساند کے گھر پیدا ہوئے۔

انہوں نے پرائمری تعلیم عمرکوٹ سے حاصل کی اور آٹھویں جماعت تک مڈل اسکول سبھو میں تعلیم حاصل کی، اس دوران انہوں نے سبھو میں اپنے والد کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی جہاں قوم پرست دانشور اور سیاست دان مرحوم عبدالواحد آریسر نے بھی ان کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔

انہوں نے 1962 میں میٹرک پاس کیا اور میرپورخاص سے ہارٹیکلچر اور فیلڈ اسسٹنٹ ایگریکلچر کا کورس پاس کرنے کے بعد انہیں فیلڈ اسسٹنٹ مقرر کیا گیا۔

1970 سے انہوں نے جاتی، سجاول، باران فارم، غلام نبی شاہ، ڈھورو نارو اور چھور میں بطور فیلڈ اسسٹنٹ کام کیا.

یہ بھی پڑھیں: ایوارڈ یافتہ شاعر و مصنف امداد حسینی انتقال کر گئے

عمرکوٹ میں تعلیم کے دوران جمن دربدر نے کالج کے استاد خادم حسین سے قومی اور سوشلسٹ نظریات پر لی گئی کتابیں پڑھیں، بعد ازاں انہوں نے سجاول میں بزم صوفیاء سندھ کانفرنس میں شرکت کی جہاں سندھ کے قومپرست رہنما جی ایم سید سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات میں قوم پرستی کا رجحان پیدا ہوا۔

بعد ازاں قومپرست رہنما عبدالواحد آریسر سے قربت کی وجہ سے قومی سیاست میں شامل ہو گئے جن کا تعلق بھی تھر کے اسی علاقے سے تھا۔ جمن دربدر بیک وقت شاعر، فنکار، ڈراما نگار تھے۔

انہوں نے ذرعی کالج سکرنڈ میں اپنی تعلیم کے دوران بہت سے ڈرامے اسٹیج کیے جن میں انہوں نے بطور اداکار، گلوکار اور ہدایت کار حصہ لیا۔ ان کے ڈراموں میں بدنصبی تھری، پھول کی لڑکی، آس، غم اور خشک سالی شامل ہیں۔

جمن دربدر نے 1968 میں اپنی شاعری کا آغاز عشقیہ شاعری سے کیا اور پھر عوامی مسائل دیکھ کر قومی شاعری لکھی۔

1987 میں انہوں نے سندھی ویمن سنستھا (تنظیم) ماری دہلی کے زیر اہتمام شاہ لطیف انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت اور وہاں گایا گیا ان کا گانا آل انڈیا ریڈیو دہلی نے نشر کیا۔

انہوں نے ڈراما آرٹسٹ کی حیثیت سے بہت سے میڈلز اپنے نام کیے، سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ وہ ادبی، سماجی اور فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔

حالیہ برسوں میں ان کی شاعری اور ان کی یادداشتوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا تھا جو بڑے پیمانے پر پڑھا گیا ہے۔

ایک معروف سیاسی اور کسانوں کے حقوق کے کارکن اور سندھ کے عوامی شاعر کی حیثیت سے، ان کی شاعری عوامی سطح پر اور سندھ کی سیاسی، ادبی اور سماجی تقریبات میں اپنی آواز میں گائی اور سنی جاتی تھی۔

جمن دربدر طنز و مزاح کے لیے بھی مشہور تھے، انہیں جمعرات کو عمرکوٹ قصبہ کے قریب ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا جن کی نماز جنازہ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے شاعر، ادیب، رہنما اور کارکنان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔

جمن دربدر کا سب سے زیادہ مقبول اور لافانی نظم (وٹھی ھر ھر جنم وربو، مٹھا مہران میں ملبو) یعنی ’ ہر دور میں جنم لے کر لوٹیں گے، میرے پیارے ہم مہران میں ملیں گے، ہم ملیں گے جب اندھیرا چھٹ جائے گا اور اس پورے چاند کی رات ملیں گے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پیغام میں جمن دربدر کی وفات کو سندھی ادب کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا۔

اس کے علاوہ، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی معروف شاعر اور ڈرامہ نگار کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

سندھ یونائٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ نے کہا کہ جمن دربدر ایک سچے سیاسی کارکن اور شاعر تھے جن کی وفات کا سن کر بہت افسوس ہوا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں