وفاق سے اب تک 10 ارب روپے کی امدادی رقم نہ ملنے پر بلوچستان اسمبلی کا اظہارِ افسوس

اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2022
اسمبلی کے اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے مکمل ایجنڈے پر بحث نہ  ہوسکی — فائل فوٹو: اے پی پی
اسمبلی کے اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے مکمل ایجنڈے پر بحث نہ ہوسکی — فائل فوٹو: اے پی پی

بلوچستان اسمبلی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے صوبے کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی امداد اور بحالی کے لیے اعلان کردہ 10 ارب روپے کی گرانٹ ابھی تک جاری نہیں ہوئی اور شہباز شریف سے بات چیت کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی اسمبلی کی حکومتی اور اپوزیشن بینچز دونوں کے قانون سازوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جب سیلاب کی امداد کی بات کی گئی تو بلوچستان کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔

قائم مقام اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت اسمبلی کے اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے مکمل ایجنڈے پر بحث نہ ہوسکی اور اجلاس پہلے ہی ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ، بحالی کیلئے 10 ارب روپے گرانٹ کا اعلان

اراکین اسمبلی نے بلوچستان ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل کی مذمت کی۔

انہوں نے سیکیورٹی آپریشن میں لاپتا افراد کی مبینہ ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔

پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے اپوزیشن لیڈر نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقے اب بھی زیر آب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں ڈکیتیوں اور چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا زرعی شعبہ بری طرح متاثر ہوا اور اسے اربوں روپے کا نقصان ہوا، صوبائی حکومت کو بیج کی خریداری کے لیے 10 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرنی تھی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا سندھ اور بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصر اللہ زہری نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) اور دیگر متعلقہ اداروں کے رویے پر تنقید کی، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حکام قائم مقام اسپیکر کے حکم کے باوجود سیلاب کی صورتحال پر بریفنگ دینے میں ناکام رہے۔

اپوزیشن رکن ثنا بلوچ نے جسٹس مسکانزئی کے قتل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خاران میں جہاں انہیں قتل کیا گیا وہاں کی صورتحال 2013 کی طرح خراب ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاران کے ایک اسپتال میں چار لاشیں لائی گئیں اور حکام نے دعویٰ کیا کہ وہ انسداد دہشت گردی کے محکمے کی کارروائی میں مارے گئے ہیں۔

اختر حسین لانگو نے تجویز دی کہ ان واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں