جمعرات کا دن برطانیہ اور اس کی مشکلات میں گھری سیاست کے لیے ہنگامہ خیز رہا کیونکہ نو منتخب وزیرِاعظم لز ٹرس نے اپنے عہدہ سے استعفی دینے کا اعلان کردیا۔

لز، صرف 45 دن کے لیے اس عہدے پر براجمان رہیں اور یوں انہوں نے برطانوی تاریخ میں سب سے کم مدت کے لیے وزیرِاعظم رہنے کا ’اعزاز‘ بھی اپنے نام کرلیا۔ تاہم وہ نئے وزیرِاعظم کے منتخب ہونے تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔

لز ٹرس، سابق برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن کے استعفی کے بعد وزیرِاعظم منتخب ہوئی تھیں اور ان کو برطانوی حکمران پارٹی، کنزرویٹو ممبران نے وزارتِ اعظمی کے دیگر امیدواروں کے مقابلے میں منتخب کیا تھا۔

استعفے کا اعلان کرتے ہوئے وزیرِاعظم لز ٹرس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں معاشی حالات بہتر کرنے کے مینڈیٹ کے ساتھ وزیرِاعظم منتخب کیا گیا تھا لیکن وہ اس ذمہ داری کو نبھانے سے قاصر رہیں۔

لز کے دورِ اقتدار کا مختصر ترین عرصہ، مشکلات سے بھرپور رہا۔ انہوں نے اقتدار سنبھالا ہی ایک ایسے وقت میں تھا جب برطانیہ پر کساد بازاری کے خطرات منڈلا رہے تھے اور ہر گزرتا دن اس خطرے کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں مہنگائی حالیہ تاریخ کی بلند ترین شرح پر موجود ہے اور اسے ’کوسٹ آف لیونگ کرائسس‘ یا رہن سہن کے اخراجات کا بحران بھی قرار دیا جارہا ہے۔

ملک کے مختلف طبقوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد یکے بعد دیگر اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتالیں اور کام بند کررہے ہیں اور پورا ملک ایک بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہے۔

گزشتہ ماہ لز ٹرس کی جانب سے مقرر کردہ وزیرِ خزانہ کواسی کوارٹنگ نے ’منی بجٹ‘ پیش کیا تھا جس پر ملک کے اندر اور باہر شدید تنقید ہوئی۔ گو اس بجٹ میں بجلی و گیس کی قیمتوں اور ٹیکس میں ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ٹیکس کٹوتیوں کے اس اعلان نے برطانوی اسٹاک مارکیٹ اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے جس کے بعد خود کنزرویٹو ممبرانِ پارلیمنٹ نے بھی حکومت پر تنقید شروع کردی۔

وزیرِ خزانہ کواسی کی جانب سے دیے گئے معاشی پلان پر آئی ایم ایف نے بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد وزیرِاعظم نے خود اپنے مقرر کردہ وزیرِ خزانہ کو عہدہ سنبھالنے کے محض 38 دن بعد ہی برطرف کردیا تھا۔ اس کے بعد وزیرِاعظم کی جانب سے جیرمی ہنٹ کو خزانہ کا قلمدان سونپا گیا جنہوں نے وزارت سنبھالتے ہی سابق وزیرِخزانہ کے تقریباً تمام اقدامات کو واپس لے لئے۔

ٹرس کے استعفی سے محض ایک دن قبل ان کی ہوم سیکرٹری یا وزیرِ داخلہ سویلا بریورمین نے بھی استعفی دے دیا تھا۔ ان پر ایک آفیشل دستاویز اپنی ذاتی ای میل سے بھیجنے کا الزام تھا جس پر حکومتی و اپوزیشن شخصیات نے کافی تنقید کی تھی۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں چٹانوں سے تیل اور گیس نکالنے کے ایک متنازعہ طریقہ کار کے بارے میں پیش ہونے والی قرارداد پر ووٹنگ کے دوران بھی حکمران جماعت کی اپنی صفوں میں ہنگامہ آرائی ہوئی جس سے پارٹی ممبران کا حکومت پر اعتماد مزید کم ہوگیا۔

اور یوں اس وزیرِاعظم کو اچانک ہی استعفے کا اعلان کرنا پڑا جو محض 2 روز قبل تک خود کو بطور ’فائٹر‘ پیش کررہی تھیں اور برطانوی عوام کو تسلی دے رہی تھیں کہ ان کے پاس برطانیہ کو بحران سے نکالنے کا واضح لائحہ عمل موجود ہے۔

موجودہ حالات میں جب معاملات بہت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور حالات ہر روز نیا رخ اختیار کررہے ہیں، ایسی صورت میں مستقبل کے بارے میں پیشگوئی آسان نہیں۔

لز ٹرس نے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے جو تقریر کی اس میں اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ کنزرویٹو ممبران اگلے ہفتے تک نیا لیڈر چن لیں گے لیکن بظاہر یہ معاملہ اتنا آسان نہیں اور اگر نیا حکمران آ بھی جائے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ حالات پر قابو پاسکے یا کم از کم اپنے اقتدار کے دن ہی پورے کرسکے۔ یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ گزشتہ 3 وزرائے اعظم اپنا دور مکمل نہیں کرسکے اور انہیں وقت سے پہلے استعفی دینا پڑا۔

کنزرویٹو پارٹی کے ذرائع کی جانب سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق نئے پارٹی رہنما کا اعلان 28 اکتوبر تک کردیا جائے گا۔ پارٹی رہنما کے الیکشن میں حصہ لینے والے ممبرانِ پارلیمنٹ کو 100 دیگر پارلیمنٹ ممبران کی حمایت دکھانا ضروری ہوگی۔ اس کا مقصد غیر مقبول رہنمائوں کو پارٹی لیڈرشپ کی دوڑ سے دُور رکھنا اور اس مرحلے کو جلد از جلد مکمل کرنا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ برطانیہ میں عموماً پارٹی لیڈر ہی وزارتِ عظمی کا امیدوار ہوتا ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کے اندرونی حلقوں کی جانب سے میڈیا میں یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ پارٹی کے بڑے اس کوشش میں ہیں کہ پارٹی الیکشن سے قبل ممبرانِ پارلیمنٹ کسی ایک نام پر متفق ہوجائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوسکا اور وزارتِ عظمی کی دوڑ میں ایک سے زائد ممبران موجود ہوئے تو ٹوری پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو مرحلہ وار انتخاب کے بعد امیدواروں کی تعداد کم کرنا ہوگی یہاں تک کہ صرف 2 ممبران باقی رہ جائیں اور پھر ان میں سے ایک شخص کو پارٹی کے عام ممبران کے ووٹ سے پارٹی لیڈر چن لیا جائے گا جو بعد ازاں وزیرِاعظم بنے گا۔ اگرچہ یہ ایک طویل مرحلہ ہے لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں پارٹی کے بڑے سر جوڑ کر اس تمام عمل کو 28 اکتوبر تک پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

برطانوی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق رشی سوناک وزارتِ عظمی کے مضبوط امیدوار ہیں۔ وہ کنزرویٹو پارٹی کے حالیہ لیڈرشپ الیکشن میں لز ٹرس کے مقابلے میں رنر اپ رہے تھے۔ ان کے علاوہ کنزرویٹو رکنِ پارلیمنٹ پینی مورڈنٹ کو بھی وزیرِاعظم کے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیرِاعظم بورس جانسن کا نام بھی متوقع وزیرِاعظم کے طور پر لیا جارہا ہے، مگر تاحال جانسن کی جانب سے اس پر کسی قسم کا ردِعمل نہیں آیا لیکن ان کے حامی اور میڈیا اس بات کی توقع ظاہر کررہے ہیں کہ وہ ملک کو درپیش اس سیاسی بحران میں ٹھراؤ کے لیے لیڈرشپ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔

دوسری طرف لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بورس جانسن کے جانے کے بعد بھی اور اب ایک بار پھر حکومت سے فوری طور پر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔ گو اس وقت تک حکومت نے اس بارے میں واضح مؤقف نہیں اپنایا مگر تجزیہ کاروں کے مطابق معاشی طور پر مشکل اور ملک کی مجموعی گھمبیر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کنزرویٹو جلد انتخابات کی طرف نہیں جائیں گے۔ لیکن دوسری جانب یہ رائے بھی موجود ہے کہ ملک جس قسم کے سیاسی و معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اس سے نکلنے کا واحد حل ایک تازہ مینڈیٹ ہے۔

ویسے ایک منٹ یہاں رک کر اگر پاکستان میں ہونے والی سیاست پر نظر دوڑائیں تو ہمیں کچھ یکسانیت نظر نہیں آتی؟ پاکستان میں بھی حکومت کی کوشش اور خواہش ہے کہ جب تک ملک میں معاشی حالات بہتر نہیں ہوجاتے، تب تک عام انتخابات کا اعلان نہیں کیا جائے اور دوسری طرف اپوزیشن مسلسل عام انتخابات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے، اس لیے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عام انتخابات پہلے پاکستان میں ہوتے ہیں یا یہاں برطانیہ میں۔

بہرحال، برطانیہ میں اگلے عام انتخابات جنوری 2025 میں منعقد ہونے ہیں۔ اگر موجودہ حکمران پارٹی یہ طے کرتی ہے کہ اسے جلد الیکشن کی طرف جانا ہے تو اس کے لیے وزیرِاعظم کو سربراہِ مملکت یعنی شاہ چارلس سوم سے پارلیمان تحلیل کرنے کی درخواست کرنا ہوگی۔ پارلیمنٹ کی تحلیل کے تقریباً 25 دن میں نئے انتخابات کا انعقاد کروایا جاسکتا ہے۔

اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی تواتر سے نئے انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے لیکن انتخابات جیتنے کے لیے جس مقبولیت اور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے وہ موجودہ لیبر پارٹی میں ناپید نظر آتی ہے۔ بورس جانسن کے دورِ اقتدار میں پے در پے اسکینڈلز کے باوجود لیبر پارٹی ان کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام رہی تھی اور آخرکار جانسن نے استعفی اس وقت دیا جب خود ان کی کابینہ کے نمایاں ارکان نے ان پر مزید اعتماد کرنے سے انکار کرتے ہوئے استعفے کا مطالبہ شروع کردیا۔ یوں بظاہر لیبر پارٹی بھی ملک کو کوئی متبادل راہ مہیا کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے۔

برطانیہ میں بریگزیٹ کے بعد سے حالات معمول پر نہیں آئے۔ کورونا کے بعد یوکرین کی جنگ نے تو جیسے برطانوی معاشرے پر براہِ راست گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ معاشی اور سیاسی دونوں محاذوں پر مسلسل تنزلی کا عمل جاری ہے۔ ایک جانب جہاں برطانوی حکمران طبقہ ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے اور اب آنے والی سردیوں میں بجلی و گیس کا ایک واضح بحران سر اٹھاتے ہوئے نظر آرہا ہے، وہیں گزشتہ 3 وزرائے اعظم اپنی اقتدار کی مدت پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں جو سیاسی عمل کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔

ایسے میں برطانیہ کو ایک مضبوط اور طویل المدتی حکومت کی اشد ضرورت ہے جو ملک کو ان تمام بحرانوں سے نکالنے کے لیے واضح اور مربوط حکمتِ عملی اپناتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ایک جگہ بٹھا سکے اور ان تمام معاملات کو حل کرسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں