بادی النظر میں ارشد شریف قتل کے تانے بانے عمران خان، سلمان اقبال کی جانب جاتے ہیں، وزیر داخلہ

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2022
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان آج قوم کے سامنے بے ہونے کے بعد قومی ناسور کی صورت اختیار کرگیا — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان آج قوم کے سامنے بے ہونے کے بعد قومی ناسور کی صورت اختیار کرگیا — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے انکشاف کیا ہے کہ ابتدائی طور پر سامنے آنے والے حقائق و شواہد کے مطابق سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کے تانے بانے اور اشارے بادی النظر میں مبینہ طور پر عمران خان اور سلمان اقبال کی جانب جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان آج ایک پھر قوم کے سامنے بے نقاب ہوگیا، ان کے بے نقاب ہونے کے بعد وہ قومی ناسور کی صورت اختیار کرگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح سے انہوں نے اپنی سیاست کے لیے سائفر کا ڈرامہ اور گھناؤنا کھیل رچایا اور ملک اور قوم کے نقصان کے بارے میں نہیں سوچا اس سے ان کی ذہنی کیفیت اور سوچ سامنے آگئی۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف کے اندوہناک قتل کو عمران خان سیاست کیلئے استعمال کر رہا ہے، وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف اگر ادارے کے مفاد کو نظر انداز کرکے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے تاحیات مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش قبول کرلیتے تو ٹھیک تھا، پھر اس کی تعریفیں کی جاتیں، وہ محب وطن جرنیل قرار دیے جاتے لیکن اگر انہوں نے اپنی ذات پر ادارے کو ترجیح دی اور تحریک عدم اعتماد کو ناکام کرنے کے لیے سیاسی کردار ادا کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ پہلے جو ہوچکا وہ ہوچکا، اب ادارہ غیر سیاسی کردار ادا کرے گا تو پھر وہ میر جعفر، میر صادق، نیوٹرل، جانور اور غدار ہیں۔

'ارشد شریف قتل پر سائفر کی طرح پروپیگنڈا کیا گیا'

وزیرداخلہ نے کہا کہ عمران خان کی ذہنیت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اور ادارہ اس کے مفادات کے لیے اس کی سیاست کے لیے کام کرے تو ٹھیک اور اس کی تعریفیں ہوں گی، لیکن اگر کوئی اس کے مفادات کے خلاف جائے تو پھر وہ چور، ڈاکو، میر جعفر، میر صادق اور غدار بھی ہے، آپ عمران نیازی کی ذہنی پستی دیکھیں کہ کس سطح پر جاکر وہ قوم کو تقسیم کرنے کی سیاست اور سازش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان خود اور ان کی پارٹی کے رہنما لانگ مارچ کے حوالے سے خونی ہونے کے دعوے کرتے رہے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ 25 مئی کو بھی لاکھوں لوگ آئیں گے لیکن اس میں وہ ناکام ہوئے اور اب ایک بار پھر وہ ناکام ہوں گے۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف قتل: ادارے پر الزام تراشی سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے تحقیقات ہونی چاہیے، پاک فوج

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کے بعد انہوں نے پروپیگنڈا کیا کہ انہیں ڈرا دھمکا کر زبردستی باہر بھیجا گیا، یہ پروپیگنڈا اسی طرح کا کھیل ہے جو سائفر کے معاملے پر کھیلا گیا، سائفر والے کھیل کی طرح اس معاملے میں بھی ان کا مکروہ چہرہ سامنے آئے گا کہ ان کا اس میں کیا گھٹیا اور گندا کردار ہے۔

'ارشد شریف کے ہمراہ موجود شخص خرم، اے آر وائی کا ملازم ہے'

رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ انہیں ڈرایا گیا، سوال یہ ہے کہ انہیں کس نے ڈرایا، تھریٹ الرٹ کے پی حکومت نے جاری کیا، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ انکوائری کے بعد ہم اس چیز کو ثابت کردیں گے کہ وہ تھریٹ الرٹ فرمائشی تھریٹ الرٹ تھا، وہ جاری ہی اس لیے کیا گیا کہ ارشد شریف کو ڈرایا جائے کہ تمہیں طالبان کی جانب سے اسلام آباد کی حدود میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اس تھریٹ الرٹ کے بعد وہ دبئی چلے گئے جہاں ان کے ویزے کی مدت ختم ہوگئی، میں پوچھتا ہوں کہ اگر دبئی میں آپ کا ویزا ختم ہوجائے تو کیا وہ آپ کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا، میرے خیال میں اس سے قبل آپ کو ویزا مدت سے متعلق نوٹس دیے جاتے ہیں، مرحوم ارشد شریف کو ڈرایا گیا، دھمکایا گیا اور مشورہ دیا گیا اور انہیں دبئی سے کینیا بھیجا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اگر آپ کا سپہ سالار میر جعفر ہے تو ان سے بند دروازے میں کیوں ملتے رہے؟ ڈی جی آئی ایس آئی

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی موصول ہونے والے حقائق جن کی مزید تصدیق کا عمل جاری ہے اور تصدیق کے بعد قوم کے سامنے رکھا جائےگا، جو لوگ کینیا میں ارشد شریف کے ساتھ تھے ان میں خرم اور وقار نامی لوگوں کا نام لیا جارہا ہے، خرم نامی شخص جو پہلے روز سے ارشد شریف کے ساتھ تھا وہ اے آر وائی کا ملازم ہے، یہ بات نہ صرف سامنے آچکی ہے بلکہ کنفرم اور ری کنفرم بھی ہوچکی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ متازع فارم ہاؤس (دی فارم ہاؤس) اس کے متعلق بھی کچھ اطلاعات موصول ہوچکی ہیں، اس کے بارے میں دو تین روز میں مصدقہ خبریں موصول ہوجائیں گی، اس کے علاوہ وقار نامی شخص کے بارے میں معلومات مل جائیں گی کہ وہ کون تھا اور اس کا اس معاملے میں کیا کردار تھا۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ گاڑی پر فائرنگ کہاں ہوئی، اس کے بعد گاڑی رکی کیوں نہیں، اس کے بعد گاڑی کو کہاں لے جایا گیا ہے، بادی النظر میں مبینہ طور پر ان تمام سوالات کے تانے بانے، اشارے 2 اشخاص کی جانب جاتے ہیں، ان میں سے ایک کا نام عمران خان اور دوسرے کا نام سلمان اقبال ہے، تاہم حقائق کی مزید چھان بین اور تصدیق کی جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اتفاق ہے تو یہ بہت عجیب اتفاق ہے، انہوں نے جب بھی لانگ مارچ شروع کرنا ہوتا ہے تو ان کو لاشیں مل جاتی ہیں، 2014 میں سانحہ ماڈل ٹاؤن مل گیا، اس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے لانگ مارچ کی بنیاد رکھی، شاید انہوں نے سوچا کہ 25 مئی کا لانگ مارچ بھی اسی لیے ناکام ہوا کیونکہ اس کی بنیاد لاش پر نہیں رکھی گئی اور بدقسمتی ہے کہ انہیں اس صحافی کی لاش میسر آگئی ہے اور اب اس پر وہ اپنے فتنے اور فساد لانگ مارچ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی ٹیم کی تشکیل نو، آئی ایس آئی افسر کو نکال دیا گیا

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ میں جمعے یا جمعرات کو لانگ مارچ کا اعلان کر رہا ہوں لیکن پھر انہوں نے منگل کے روز کیوں اپنے لانگ مارچ کا اعلان کیا جب کہ اسی رات ارشد شریف کی میت کو کینیا سے لایا جارہا تھا تو ایسے میں انہیں اپنے لانگ مارچ کو 2 روز قبل اعلان کرنے کی ضرورت کیا تھی۔

'فوج کی جانب سے غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ قوم کے ساتھ شیئر کیا جانا قابل تحسین ہے'

وزیر داخلہ نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے دو ٹوک اور واضح پیغام قوم کے سامنے رکھا ہے کہ ایک فیصلہ ادارے نے کیا ہے کہ ادارہ اب غیر سیاسی رہے گا اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا، وہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور صحافیوں نے ملک میں گزشتہ 70 برسوں میں اس مقصد کے لیے جد وجہد کی، مار کھائی، قید و بند کی صعوبتیں براشت کیں اور یہ بات ان تمام لوگوں کے لیے قابل اطمینان اور قابل فخر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جدوجہد کرنے والوں کا مؤقف یہ تھا کہ اگر ادارے اپنے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں گے تو ملک ترقی کرے گا، قوم خوشحال اور سروخرو ہوگی، یہ جد وجہد آج بارآور ثابت ہوگی، آج ادارے کی جانب سے نہ صرف اس کا باضابطہ اعلان کیا گیا ہے بلکہ جب صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ یہ ایک فرد کا فیصلہ ہے جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیا کہ نہیں یہ ایک فرد کا نہیں بلکہ ادارے کا فیصلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے نیوٹرل جیسے لفظ کو گالی بنا دیا، وہ کہتے ہیں کہ گھر پر ڈاکا پڑ جائے تو چوکیدار کیسے غیر جانب دار رہ سکتا ہے جب کہ سب سے بڑا ڈاکو تو عمران خان خود ہے تو وہ کس طرح سے یہ بیان دیتا ہے، عمران خان اس صورتحال میں فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں آرمی چیف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے تاحیات توسیع کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے اپنے ادارے کو سرخرو کیا، اپنے ادارے کی عزت رکھی اور وہ فیصلہ اپنایا جو ان کے ادارے نے کیا تھا اور میں اس بات کو بھی سراہتا ہوں کہ انہوں نے اس فیصلے کو قوم کے ساتھ شیئر کیا۔

'مطمئن ہوئے تو پی ٹی آئی کو 2 روز قبل اسلام آباد جلسے کی اجازت دی جائے گی'

ان کا کہنا تھا کہ 2 رکنی تحقیقاتی ٹیم کو کینیا روانہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے ساتھ رہنے والے دونوں افراد تک رسائی حاصل کی جائے اور ان سے تحقیقات کی جائے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں، کس کمپنی کے ملازم ہیں، کس قسم کا ان کا کاروبار ہے، گاڑی کا معائنہ کریں، جائے وقوع کا دورہ کریں اور کوشش کریں کہ اس پولیس پارٹی کو بھی شامل تفتیش کریں جو اس معاملے میں ملوث تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم اس فارم ہاؤس کی ملکیت سے متعلق بھی دستاویزات حاصل کرے تاکہ اس کو شیئر کیا جائے، اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ خرم جو گزشتہ کئی روز سے ارشد شریف کے ساتھ تھا تو اس نے حادثے کے بعد سب سے پہلے اہل خانہ سے رابطہ کیوں نہیں کیا، ان تمام معاملات پر تحقیق و تفتیش جاری ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ابھی ایک اجلاس ہوا ہے جس میں لانگ مارچ سے متعلق سیکیورٹی کا جائزہ لیا گیا ہے، پی ٹی آئی کی درخواست کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے، اگر اسلام آباد پولیس ان کی درخواست سے مطمئن ہوئی تو پی ٹی آئی کو 2 روز قبل جلسے کی اجازت دے دی جائے گی۔

تبصرے (2) بند ہیں

جنید طاہر Oct 27, 2022 04:55pm
سوال یہ ہے کہ صاحبِ اقتدار لوگ کب تک عوامی ذہانت کی توہین کرتے رہیں گے
Waseem Oct 27, 2022 07:02pm
Mr. home minister do you really think we are so stupid?