ایف آئی آر پر ڈیڈ لاک، عمران خان پر حملے کی تحقیقات میں قانونی پیچیدگیاں آڑے آگئیں

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2022
یہ صورتحال وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکی ہے —فوٹو : اے ایف پی
یہ صورتحال وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکی ہے —فوٹو : اے ایف پی

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر لانگ مارچ کے دوران حملے کے ایک روز بعد تفتیش کار مزید 2 افراد کو گرفتار کر چکے ہیں لیکن عمران خان کی جانب سے اس واقعے کے ذمہ داران میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ ایک اعلیٰ فوجی افسر کا نام واپس لینے سے مبینہ انکار کے سبب ایف آئی آر کے اندراج پر تعطل برقرار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اطلاعات ہیں کہ یہ صورتحال وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکی ہے کیونکہ عمران خان کی جانب سے ایف آئی آر میں فوجی افسر کو نامزد کرنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ افسر کے خلاف عمران خان کے الزامات بے بنیاد اور ناقابل قبول ہیں، آئی ایس پی آر

یہ معاملہ گزشتہ روز صوبائی کابینہ کے اجلاس کے دوران بھی اٹھایا گیا جس میں آئی جی پی فیصل شاہکار کے علاوہ دیگر اعلیٰ سرکاری افسران اور صوبائی وزیر قانون نے بھی شرکت کی۔

اس پیشرفت سے آگاہ ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس میں مقدمے کے اندراج کے تمام قانونی پہلوؤں سے متعلق سنگین مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں اس بات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ مقدمے کے اندراج میں مزید تاخیر شواہد کو محفوظ بنانے اور وزیر آباد میں عمران خان کے کنٹینر پر مسلح حملے میں ملوث ملزمان کو سزا دینے کی تمام کوششوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

خیال رہے کہ اس واقعے میں ایک شخص کی موت بھی واقع ہو گئی تھی جبکہ عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں سمیت 14 افراد زخمی ہوئے۔

مزید پڑھیں: ٹھیک ہوتے ہی دوبارہ سڑکوں پر نکلوں گا، عمران خان

معاملے کی سیاسی جہتوں کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ ’چوہدری پرویز الٰہی اس مقدمے میں سینیئر فوجی افسر کو نامزد کرنے کے خلاف ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس معاملے پر کئی ملاقاتیں کی ہیں جن میں پرویز الٰہی نے انہیں فوجی افسر کا نام شامل نہ کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’تھانے میں درخواست دائر کرنے کا معاملہ پی ٹی آئی اور پنجاب حکومت کے درمیان موضوعِ بحث بن چکا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ سربراہ پولیس نے حکومت کو آگاہ کیا کہ ’تفتیش شروع کرنے کے لیے ایف آئی آر پہلی باضابطہ دستاویز ہوتی ہے‘، لیکن موقع پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے مبینہ حملہ آور سمیت 3 مشتبہ افراد کو حراست میں لیے جانے کے باوجود بدقسمتی سے تفتیشی عمل تاحال تعطل کا شکار ہے۔

کابینہ کے اجلاس میں آئی جی پی نے شرکا کو بتایا کہ پولیس کو عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کے حوالے سے پنجاب پولیس کا مؤقف تھا کہ مقدمہ درج کرنے سے پہلے جے آئی ٹی کی تشکیل قبل از وقت ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان پر حملے کے باوجود پی ٹی آئی کا پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان

اجلاس بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوگیا جب شرکا کو بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت مزید ملاقاتوں میں اس معاملے پر بات چیت کریں گے، تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں نے اجلاسوں میں حتمی فیصلہ لینے کے بعد درخواست کی کاپی وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک سوال کے جواب میں عہدیدار نے کہا کہ 2 دیگر ملزمان وقاص اور ساجد بٹ کو پولیس نے گزشتہ روز گرفتار کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ انہوں نے پستول اور گولیاں مرکزی ملزم نوید بشیر کو 20 ہزار روپے میں فروخت کی تھیں، مزید تفتیش کے لیے نوید بشیر کو محکمہ انسداد دہشتگردی گوجرانوالہ (سی ٹی ڈی) کے افسران کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ایک سینئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے درجن بھر سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل وقعے کی فوٹیج کا جائزہ لینے کے دوران متعدد غلطیاں سامنے آئیں، سب سے بڑی غلطی سیکیورٹی اقدامات میں خامی تھی جسے اس واقعے کی تحقیقات کے ابتدائی مرحلے میں ترجیح پر رکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سربراہ پنجاب پولیس نے ذیلی کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ معاملہ صوبائی حکومت کے سامنے اٹھایا جہاں انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان کی نجی سیکیورٹی ٹیم نے پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری کی خلاف ورزی کی۔

مزید پڑھیں: ہم بلیک میل نہیں ہوں گے، عمران خان قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، رانا ثنااللہ

سیکیورٹی ایڈوائزری میں گجرات پولیس نے عمران خان کے چیف سیکیورٹی آفیسر (سی ایس او) کو عوامی اجتماع میں ان کی جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر بلٹ پروف روسٹرم استعمال کرنے کی سختی سے تاکید کی تھی۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’گوجرانوالہ پولیس نے چیف سیکیورٹی آفیسر کو پیشکش کی تھی کہ وہ عمران خان کی سیکیورٹی کے لیے لانگ مارچ کے دوران ان کے زیرِاستعمال کنٹینر پر بلٹ پروف روسٹرم فراہم کر سکتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے کو پولیس نے کابینہ کے کچھ ذیلی اجلاسوں میں بھی اجاگر کیا تھا، چیف سیکیورٹی آفیسر کو ایڈوائزری موصول ہوئی تھی اور انہوں نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ بلٹ پروف روسٹرم کنٹینر پر نصب کیا جائے گا۔

تاہم جب سیکیورٹی ایڈوائزری کی خلاف ورزی کی گئی تو پولیس نے عمران خان کے سیکیورٹی افسران کو مشورہ دیا کہ وہ کنٹینر پر موجود پولیس کو ان کی سیکیورٹی کے لیے رسائی دیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے 3 نام دیے ہیں جو ملوث ہوسکتے ہیں، اسد عمر

اس کے باوجود سیکورٹی عملے نے مسلح پولیس کو کنٹینر میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جہاں عمران خان کنٹینر پر آنے والے ہر شخص سے خود بات چیت کے لیے با آسانی دستیاب تھے، سیکیورٹی کی اس سنگین خلاف ورزی پر پولیس کے اعلیٰ افسران نے اظہارِ ناراضگی کیا تھا۔

وزیر آباد میں کنٹینر پر مسلح حملے میں ملوث دیگر حملہ آوروں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پولیس افسر نے کہا کہ ابھی حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ تحقیقات کا آغاز ہونا باقی ہے۔

انہوں نے کئی دیگر قانونی خامیوں کی بھی نشاندہی کی جو عدالت میں تفتیش کاروں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں، انہوں نے کہا کہ ’جب عمران خان گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تو انہیں سب سے پہلے قریبی سرکاری ہسپتال منتقل کیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قانون ابتدائی طبی علاج کے لیے متاثرہ شخص کو نجی طبی مراکز لے جانے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ غلط یا ادھوری طبی-قانونی رپورٹیں قانونی کارروائی میں وقفہ یا تاخیر کا باعث بن سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر آباد: لانگ مارچ میں کنٹینر پر فائرنگ، عمران خان سمیت کئی رہنما زخمی، حملہ آور گرفتار

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کو وزیر آباد سے شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا تھا جوکہ سرکاری طور پر قابل قبول میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ پنجاب حکومت نے سرکاری ہسپتال ’جناح ہسپتال لاہور‘ سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم قانونی کارروائی مکمل کرنے کے لیے شوکت خانم بھیجی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں