تو ہر طرح کی اگر اور مگر کو ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں 2022 کے ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے کے لیے میلبرن پہنچ چکی ہیں۔ جس وقت عالمی کپ کا آغاز ہوا تھا تو شاید ہی کسی نے یہ توقع کی تھی کہ فائنل ان دونوں ٹیموں کے مابین کھیلا جائے گا۔

پھر یہ توقع اس وقت تو بالکل ہی ختم ہوگئی تھی جب یہ ٹیمیں گروپ میچوں میں آئر لینڈ اور زمبابوے سے اپنے میچ ہار گئیں تھیں لیکن شاید یہ قدرت کے نظام کا ہی کرشمہ ہے کہ جس طرح آسٹریلیا کی سرزمین پر کھیلے جانیوالے پہلے ایک روزہ عالمی کپ میں انگلینڈ اور پاکستان کے مابین فائنل ہوا تھا، اسی طرح اس ملک میں 30 سال اور 7 ماہ بعد منعقد ہونے والے پہلے ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل بھی یہی دونوں ٹیمیں کھیلنے جارہی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ میلبرن میں 13 نومبر کو شیڈول فائنل ان دونوں ٹیموں کا ٹی20 ورلڈ کپ کا تیسرا فائنل ہوگا اور دونوں ہی ٹیمیں ایک ایک مرتبہ اس فارمیٹ میں عالمی چیمپئن رہ چکی ہیں۔ پاکستان نے 2009ء میں سری لنکا کو شکست دے کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا جبکہ اگلے ہی برس یعنی 2010ء میں انگلینڈ نے آسٹریلیا کو ہرا کر یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔

ویسے اگر اتفاقات کے ذکر کو مزید وسعت دیں، تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جب 2010ء میں قومی ٹیم نے ٹی20 ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر قدم رکھا تو بطور دفاعی چیمپئن رکھا۔ اور اب بھی ٹی20 ورلڈ کپ کا اگلا ایڈیشن ویسٹ انڈیز میں ہی کھیلا جانے والا ہے، تو کیا ایک مرتبہ پھر پاکستان جزائر غرب الہند کا سفر دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے کرے گا؟ قدرت کا نظام تو کچھ بھی کرسکتا ہے ویسے۔

مستقبل یا ماضی کے جھروکوں سے حال کی طرف واپس آتے ہیں اور فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیموں کی خامیوں اور خوبیوں کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں۔


اوپننگ جوڑی


پاکستان کے پاس بابر اعظم اور محمد رضوان کی شکل میں ایک کامیاب اور تجربہ کار اوپننگ جوڑی موجود ہے۔ یہ جوڑی ٹی20 کرکٹ میں اب تک 51.20 کی اوسط سے 2509 رنز بنا چکی ہے۔ پاکستان کے یہ دونوں ہی کھلاڑی ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچوں میں کچھ بجھے بجھے رہے لیکن بتدریج ان کی فارم بحال ہوگئی اور سیمی فائنل میں ان دونوں نے 105 رنز کی شراکت بناکر اپنی ٹیم کی فتح کی بنیاد رکھی۔ اس شراکت نے بابر اور رضوان کو ٹی20 عالمی کپ میں 3 مرتبہ سنچری شراکت قائم کرنے والی پہلی جوڑی بھی بنا دیا ہے۔

دوسری طرف انگلینڈ کی اوپننگ جوڑی پر نظر ڈالیں تو ایک منفرد بات سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ ایلیکس ہیلز اور جوز بٹلر پہلی مرتبہ حالیہ ٹی20 عالمی کپ میں ایک ساتھ اوپننگ کررہے ہیں۔ اب تک یہ دونوں کھلاڑی تسلسل کے ساتھ کارکردگی تو پیش نہیں کرسکے لیکن جس طرح انہوں نے راؤنڈ میچ میں سری لنکا کے خلاف اور اہم ترین سیمی فائنل میں بھارت کیخلاف بیٹنگ کی اور پاور پلے کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے میچ پر گرفت حاصل کی، یہ کسی بھی ٹیم کو خوفزدہ کرنے کے لیے کافی ہے۔

ان دونوں ٹیموں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جہاں پاکستان کا نسبتاً کمزور مڈل آرڈر ہمارے اوپنرز کو خوفزدہ رکھتا ہے اور کھل کر کھیلنے سے کسی حد تک روکے رکھتا ہے، وہیں انگلینڈ کا مضبوط مڈل آرڈر ان کے اوپنرز کو بلا خوف و خطر کھیلنے کی پوری اجازت دیتا ہے اور اس خوبی کا ذکر انگلینڈ کے کپتان جوز بٹلر انڈیا کے خلاف جیت کے بعد کرچکے ہیں۔


باؤلنگ کا شعبہ


پاکستان کے پاس ایک مضبوط اور تجربہ کار باؤلنگ موجود ہے۔ اب تک اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کو کامیابیاں دلوانے میں باؤلنگ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اس پورے ایونٹ میں بھارت وہ واحد ٹیم ہے جس نے پاکستان کے خلاف 160 یا اس سے زائد رنز بنائے ہیں۔

پاکستان کی باولنگ کے خلاف پاور پلے میں 6.19 کی اوسط سے رنز بنیں جبکہ انہوں نے اس مرحلے میں 18.58 کے اسٹرائیک ریٹ سے باؤلنگ کی ہے۔ یہ کارکردگی ان کو ٹورنامنٹ کی دوسری تمام باؤلنگ لائن کے مقابلے میں منفرد اور مضبوط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

پاور پلے میں پاکستانی باؤلرز نے نے اب تک 12وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں اور یہ ایسا ہتھیار ہے جس سے مقابلہ کرنے کے لیے انگلینڈ کے اوپنرز اور ٹیم انتظامیہ یقیناً غور کررہی ہوگی۔

پاکستان کے برخلاف انگلینڈ کے باؤلرز کی پاور پلے میں کارکردگی اتنی اچھی نہیں رہی ہے۔ اس مرحلے میں ان کی اوسط 37.67 جبکہ ان کا اسٹرائیک ریٹ 30 رہا ہے اور یہ اس ٹورنامنٹ کی تیسری بدترین کارکردگی ہے۔

پاور پلے کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے تو بظاہر پاکستان کا پلڑا بھاری لگ رہا ہے لیکن اننگ کے درمیانی اور آخری اوورز میں انگلینڈ کے باؤلرز الگ روپ اختیار کرلیتے ہیں اور فائنل تک رسائی کے لیے اس بدلتے روپ کا بھی بڑا کردار ہے۔

انگلینڈ کے لیگ اسپنر عادل رشید نے نیوزی لینڈ، سری لنکا اور بھارت کے خلاف بے مثال کارکردگی پیش کی ہے اور وہ پاکستان کے لیے بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ انگلینڈ کے تیز رفتار باؤلز مارک ووڈ زخمی ہونے کی وجہ سے سیمی فائنل نہیں کھیل سکے تھے اور قومی ٹیم کو دعا کرنی چاہیے کہ وہ فائنل میں بھی ٹیم کا حصہ نہیں ہوں کیونکہ ان کی تیز رفتار باؤلنگ کا مقابلہ کرنا ہمارے بیٹسمینوں کے لیے کافی مشکل ہوسکتا ہے۔


فیلڈنگ کا شعبہ


یہ وہ شعبہ ہے جہاں انگلینڈ کو پاکستان پر واضح برتری حاصل ہے۔ انگلینڈ کے تمام ہی کھلاڑیوں میں یہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ وہ مشکل سے مشکل کیچ پکڑنے اور رنز روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

پاکستان کی ٹیم کا جائزہ لیں تو یہ ٹیم عام طور پر فیلڈنگ میں غلطیاں کرکے خود پر غیر ضروری دباؤ بڑھا لیتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی صورتحال مختلف بھی ہوجاتی ہے جس طرح نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں ہوا۔ پاکستان کو اگر انگلینڈ کا مقابلہ کرنا ہے اور ان کو ایک قابلِ رسائی اسکور تک محدود کرنا ہے یا اپنے ہدف کا دفاع کرنا ہے تو فیلڈرز کو اپنے باؤلرز کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔


ترپ کا پتہ


پاکستان نے فخر زمان کے زخمی ہونے کے باعث نوجوان کھلاڑی محمد حارث کو ٹیم کا حصہ بنایا ہے اور جب سے وہ ٹیم میں آئے ہیں، انہوں نے پاکستان کی بیٹنگ میں ایک تحریک پیدا کردی ہے۔ اس اہم فائنل میں حارث پاکستان کے لیے ترپ کا پتہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ حارث کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بڑے اور اہم میچ میں طویل اننگ کھیل کر دنیا کے سامنے اپنے ٹیلنٹ کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیم کی کارکردگی میں اہم کردار ادا کریں۔


آئی سی سی ٹورنامنٹ میں ناک آؤٹ مرحلے کا جائزہ


ٹی20 ورلڈ کپ میں اب تک یہ دونوں ٹیمیں 2 مرتبہ مدِمقابل آئی ہیں اور دونوں ہی مرتبہ کامیابی انگلینڈ کو ملی۔ لیکن دوسری طرف اگر آئی سی سی کے تحت کھیلے گئے ٹورنامنٹس کے ناک آؤٹ مرحلے کا جائزہ لیں تو یہ دونوں ٹیمیں 1992ء کے عالمی کپ کے فائنل اور 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں مدِمقامل آئی ہیں اور ان دونوں مقابلوں میں فتح کی دیوی نے خلافِ توقع پاکستان کے قدم چومے۔

تو کیا پاکستان ناک آؤٹ مرحلوں میں انگلینڈ کے خلاف جیتنے کا اپنا ریکارڈ برقرار رکھ سکے گا یا پھر انگلینڈ ٹی20 عالمی کپ میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر شکست دے کر عالمی چیمپیئن بن جائے گا؟ اس کا جواب تو شاید ان دونوں ٹیموں کے پاس بھی نہیں ہوگا۔ لیکن یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر اس فائنل میں انگلینڈ کی ٹیم فاتح رہتی ہے تو یہ پہلی ٹیم بن جائے گی جو بیک وقت ایک روزہ اور ٹی20 کرکٹ کی چیمپیئن ہوگی۔


بارش ہوگئی تو کیا ہوگا؟


پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ہونے والا یہ فائنل بارش سے متاثر ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس فائنل کے لیے ایک اضافی دن بھی رکھا گیا ہے مگر کہا جارہا ہے کہ شاید دونوں دن ہی بارش ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ میچ منعقد ہی نہ ہوسکے۔ ویسے تو ہماری دعا ہے کہ یہ میچ ضرور ہو لیکن اگر یہ مقابلہ بارش کی وجہ سے منسوخ ہوتا ہے تو پھر دونوں ہی ٹیموں کو فاتح قرار دے دیا جائے گا۔

فائنل میچ کے نتیجے سے قطعی نظر اگر پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ٹیم میں کچھ جھول اور تسلسل کی کمی اب بھی موجود ہے۔ اس لیے اگر ہمیں مستقل طور پر کامیابی حاصل کرنی ہے تو یہ بہت ضروری ہوگا کہ فتح اور شکست دونوں ہی صورتوں میں ہم ان کی کوتاہیوں کا جائزہ لیں اور انہیں دُور کرنے کی کوششیں کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں