سپریم کورٹ آف پاکستان نے سماعت کے دوران استدلال کیا کہ کیا بلوچستان حکومت ریکوڈک معاہدے پر وفاقی قانون میں ترمیم کر سکتی ہے؟

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ریکوڈک معاہدہ کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سینئر وکیل ڈاکٹر فروغ نسیم نے تجویزپیش کی کہ ایکٹ میں ترمیم کو مکمل طور پر نیا قانون سمجھا جائے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریگولیشن آف مائنز اینڈ آئل فیلڈز اینڈ منرل ڈویلپمنٹ (گورنمنٹ کنٹرول) ایکٹ (آر ایم او ایم ڈی اے) 1948 کی دفعہ 7 بلوچستان اسمبلی سے متصادم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی قانون کے تحت آر ایم او ایم ڈی اے ایکٹ کے تحت تیل، گیس اور جوہری مسائل جیسے معاملات کا تعین کرتا ہے جبکہ صوبوں کے پاس معدنیات جیسے مسائل زیر غور ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مشاہدہ کیا کہ قانون کو کسی کے ساتھ ملایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی خود مکمل ہوسکتا ہے، یہ ایک صوبائی قانون ہے جو مکمل طور پر وفاق سے لیا گیا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ دفعہ 7 کے مطابق ایسے معاملات جہاں صوبائی حکومت کے عوامی مفاد میں تحریری طور درج کی گئی وجوہات کے بنا پر اگر کوئی بین الاقوامی ذمہ داری ہو تو ایسے قواعد و ضوابط پر مزاکرات کے تحت معاہدہ ہوسکتا ہے جن پر تمام لوگ اتفاق کریں

ایکٹ میں ترمیم کے مطابق صوبائی حکومت کو لائسنس، لیز یا گرانٹ اور تجدید کے بغیر مذاکراتی معاہدہ پر عمل کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ ایک سے زائد لوگوں کے درمیان کمرشل معاہدہ ہے اور صوبائی حکومت نجی مذکرات کے تحت داخل ہوئی ہے۔

صحیح قانون سازی

اس سے قبل ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ترمیمی ایکٹ 1948 کو وفاق کے ذریعے ختم کرنے کے حوالے سے عدالت کے لیے ماحول ساز گار نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایکٹ 1948 اور ترمیمی دفعہ 7 دونوں کی قانون سازی درست تھی اور دونوں متعلقہ شعبوں پر عائد ہوتے ہیں۔

یہ تنازع اس وقت سامنے آیا جسٹس منیب اختر نے مشاہدہ کیا کہ صوبائی قانون سازی کے بنائے گئے صوبائی قوانین وفاقی قانون اور آئینی ذمہ داریاں عائد نہیں کرسکتا تاہم صرف وفاقی قانون ہی صوبائی حکومت پر ایسی پابندیاں یا قانون عائد کرسکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اسی لیے صوبائی قانون سازی کے اختیارات وفاقی قانون سازی کے تحت کام کرسکتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ صوبہ خیربپختونخوا پہلے ہی اس ضمن میں الگ قانون بنا چکا ہے۔

اس سے قبل بلوچستان حکومت کے وکیل صلاحدین احمد نے دلائل دیتے ہوئے کہا حکومت بہت مشکل وقت سے گزر رہی ہے، الگ قانون کو اپنان بہت مشکل تھا اسی لیے سیکشن 7 میں ترمیم ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔

جسٹس یہحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ الگ قانون کو اپنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کوسامنے آنے چاہیے، وکیل صلاحدین احمد نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی پہلے ہی اس معاملے سے واقف ہے اور ترمیمی دفعہ 7 کے پاس ہونے کےبعد اجلاس میں 9 گھنٹے تک صوبائی اسمبلی کو بریفنگ دی گئی تھی۔

جسٹس یہحیٰ آفریدی نےریمارکس دیے کہ جب کسی قانون میں وضاحت کی ضرورت ہو اس میں کسی کو ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے اس لیے اسے صوبائی اسمبلی کے ذریعے کروایا جائے،

انہوں نے وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہوکیل ایک عام قانون لے کر آئے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ عدالت ہی اسے عائد کرے۔

جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان اسمبلی نےاپنے زاویے کے مطابق قانون سازی کی تھی اور اس وقت نئی قانون سازی کے لیے واپس جانا بہت مشکل مرحلہ ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل کو تجویز دی کہ مستقبل میں اسمبلی آزادانہ قانون بنائے۔

جس پر صلاحدین احمد نے وضاحت کی کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار سے اس سلسلے میں مشورہ لینے کے لیے پیشگی درخواست کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں