پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے کئی کتابوں کے مصنف سینئر امریکی اسکالر مارون وین بام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نئے آرمی چیف ملک میں نئے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ طے کر کے سمجھوتے کا معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی کونسل کے بین الاقوامی تعلقات (سی ایف آر) کی طرف سے شائع کیے گئے مضمون میں ایک اور امریکی دانشور اینڈریو گورڈن نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی امداد میں اضافہ کرے۔

دوسری جانب سینئرامریکی اسکالر مارون وین بام نے واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ (ایم ای ٹی) کے لیے لکھا کہ نئے آرمی چیف کی زیر قیادت اس بات کے امکانات بڑھ سکتے ہیں کہ فوج ملک میں نئے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ طے کرا کر سمجھوتے کا معاہدہ کرانے میں کامیاب ہو جائے۔

انڈریو گارڈن نے لکھا کہ پاکستان کی مدد میں اضافہ کرنے سے امریکا اپنے اسٹریٹیجک مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کی ذمہ داریاں پوری اور جنوبی ایشیائی ملک کو بحران سے نکالنے میں بھی مدد کرے گا۔

سی ایف آر آرٹیکل کا بڑا حصہ پاک امریکا تعلقات سے متعلق ہے البتہ ایم ای آئی آرٹیکل میں پاکستان کے نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی۔

امریکی دانشور مارون وینبام نے آرٹیکل میں نشاندہی کی کہ ایسے نئے آرمی چیف کا انتخاب کرنے کو ترجیح دے گی جو حکمران اتحاد کے مفادات کا تحفظ کرے لیکن وزیراعظم شہباز شریف پر ملٹری اسٹبلشمنٹ کا دباؤ ہے کہ وہ نئے آرمی چیف کا انتخاب سنیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پر کریں۔

نامور پاکستانی نژاد امریکی دانشور شجاع نواز کی پاکستان آرمی پر لکھی گئی کتب پاکستان اور امریکی جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں، اور انہوں نے بھی نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے اہم بنیادی نکتہ اٹھایا، مشہور اسکالر نے موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے دو روز قبل 27 نومبر کو چھ ممکنہ امیدواروں میں سے ایک افسر کی ریٹائرمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 27 نومبر سے قبل کسی ایک امیدوار کا بطور آرمی چیف تقرر قانونی پیچیدگیوں کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ بیک وقت دو آرمی چیف نہیں ہو سکتے۔

امریکی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ دو سینئر ترین جرنیلوں کو چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے طور پر منتخب کیا جائے جبکہ کسی سمجھوتے کے نتیجے میں تیسرے امیدوار کا نام بھی سامنے آ سکتا ہے۔

مارون وینبام نے کہا کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی اسلام آباد آمد آمد ہے اور ایسی سیاسی صورتحال میں فوج کی اعلیٰ قیادت کسی ایک فریق کا ساتھ دینے کے گریز کرتے نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ فوج کے زیادہ تر افسران سابق وزیراعظم سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے آرمی نے ملک میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داری مقامی پولیس، وفاقی پارلیمانی رینجرز اور ملک کے قبائلی اہلکاروں پر چھوڑ دی ہے۔

مارون وینبام نے کہا کہ عمران خان اگر امید کرتے ہیں کہ وہ اقتدار پر دوبارہ واپس آجائیں تو انہیں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے صلح کرنی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان لانگ مارچ کے دوران ایک بڑی عوامی تحریک کو متحد کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس بات کو فوج بھی سراہتی ہے۔

مارون ویبانم عمران خان انا کا مینڈیٹ لے کر نئے انتخابات میں حصہ لیں گے، لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان کو مشترکہ سویلین ملٹری گورننس کی بحالی کے لیے ایک ہنر مند اور مستحکم آرمی چیف کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے تمام فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تشدد اور انتشار کے نتیجے میں پاکستان معاشی طور پر مزید غیر مستحکم ہوسکتا ہے۔

امریکی دانشور انڈریو گورڈن نے خبردار کیا کہ پاکستان کی معیشت خطرے میں ہے اور ملک میں سیاسی بحران کی وجہ سے قوم مزید بدحالی کا شکار ہوسکتی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ نومبر 2022 میں امریکا نے پاکستان کو 9کروڑ 70لاکھ ڈالر امداد فراہم کی تھی لیکن یہ امداد پاکستان کی بحالی کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہو گی، پاکستان سیلاب سے پہلے ہی بڑے نقصان کا شکار ہے جس کا تخمینہ 40 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں