فیصل واڈا غلطی تسلیم کرکے 63 ون سی کے تحت نااہل ہو جائیں، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2022
فیصل واڈا نے جنوری میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا — فائل/فوٹو:ڈان
فیصل واڈا نے جنوری میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا — فائل/فوٹو:ڈان

سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ‏سابق وفاقی وزیر اپنی غلطی تسلیم کریں اور 63 (ون) (سی) کے تحت نااہل ہو جائیں یا ‏بصورت دیگر عدالت 62 (ون) (ایف) کے تحت کیس میں پیش رفت کرے گی۔

فیصل واڈا نے جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی کے خلاف درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق سینیٹر کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ‏عدالت کے سامنے فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی کے لیے کافی مواد موجود ہے، فیصل واڈا کو اپنی غلطی تحریری طور پر تسلیم کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ فیصل واڈا، سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو کر کہیں کہ انہوں نے دہری شہریت کی تاریخ بدلی، فیصل واڈا کے وکیل وسیم سجاد نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن قانون کی عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن کسی کو تاحیات نااہل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے مواد ہے جس سے ثابت ہے کہ فیصل واڈا نے غلط بیان حلفی دیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس تو تاحیات نااہلی کی ڈکلئیریشن کا اختیار ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کیوں اپنے سامنے موجود شواہد سے تاحیات نااہل نہیں کر سکتی؟ فیصل واڈا نے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فیصل واڈا نے بیان حلفی نوکری کے لیے نہیں انتخابات کے لیے جمع کرایا تھا، انتخابات لڑنے کے لیے صادق و امین ہونا شرط ہے، سیاست میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی، مستقبل کے قانون سازوں کو جھوٹے حلف نامے جمع کرانے کی اجازت نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل واڈا نے ہر فورم پر غلط بیان حلفی کے معاملے کو تسلیم کرنے کے بجائے مقدمہ لڑنے کو فوقیت دی۔

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے فیصل واڈا کو کل ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا، ‏‏عدالت نے سابق سینیٹر کو امریکا کی شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ ساتھ لانے کا حکم بھی دے دیا۔

فیصل واڈا نااہلی

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے فیصل واڈا کے خلاف دہری شہریت پر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔

محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا، جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی ’غلط‘ قرار دیا گیا تھا۔

فیصل واڈا پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی دہری شہریت کو چھپایا تھا۔

فیصل واڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، مذکورہ کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کیس پر سماعت ہوئی۔

ان کی دوہری شہریت کے خلاف قادر مندوخیل کی جانب سے 2018 میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس وقت فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دہری شہریت کے حامل اور امریکی شہری تھے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں ایک بیانِ حلفی دائر کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ انہوں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا اس لیے آئین کی دفعہ 62 (ون) (ایف) کے تحت وہ نااہل ہیں۔

درخواست کی سماعت کے دوران سابق وزیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل انہوں نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا۔

سماعت کے دوران فیصل واڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے ان کا پیدائشی سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا اور بتایا تھا کہ فیصل واڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں