صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے پر 60 روز میں ضمنی انتخابات کرادیں گے، الیکشن کمیشن

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2022
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کسی بھی صوبائی حلقے میں انتخابات پر تقریباً 5 سے 7 کروڑ خرچ ہوگا — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کسی بھی صوبائی حلقے میں انتخابات پر تقریباً 5 سے 7 کروڑ خرچ ہوگا — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے صوبائی اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کے بعد کہا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں قومی نہیں بلکہ متعلقہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن دوبارہ ہوگا۔

واضح رہے کہ 3 نومبر کو وزیر آباد میں کنٹینر پر حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعد پہلی بار ہفتے کے روز راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکا سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے سیاسی حلیفوں اور مخالفین کو یکساں طور پر ’سرپرائز‘ دیتے ہوئے ’موجودہ کرپٹ سیاسی نظام‘ سے علیحدگی اختیار کرنے کے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم انہوں نے کہا تھا کہ میں نے وزرائے اعلیٰ سے بات کی ہے، پارلیمنٹری پارٹی سے بھی مشاورت کر رہا ہوں، آنے والے دنوں میں اعلان کریں گے کہ کس دن ہم ساری اسمبلیوں سے باہر نکل رہے ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے اہم بیان سامنے آگیا جس میں الیکشن کمیشن نے صورتحال کو واضح کرتے ہوئے انتخابات سے متعلق ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دیا ہے۔

آج ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے پر قومی نہیں بلکہ متعلقہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن دوبارہ ہوگا، جتنے بھی اراکین مستعفی ہوں گے، ان کی نشستوں پر 60 روز میں ضمنی انتخابات کرا دیں گے۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کسی بھی صوبائی حلقے میں انتخابات پر تقریباً 5 سے 7 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا ایک ہی سال میں ضمنی اور عام انتخابات کرانا مشکل ہوگا، ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک ہی سال میں ضمنی اور عام انتخابات کرانا مشکل ہے لیکن قانون کے پابند ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ملک بھر میں حلقہ بندیاں کرنا اور مختلف حصوں میں بلدیاتی انتخابات بھی مشکل کام تھا جو ہم نے کیا، قانون کے مطابق اگر مشکل بھی ہے تو انتخابات کرائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے دوبارہ انتخابات پر کم از کم ساڑھے 22 ارب روپے کا خرچ آئے گا، اسمبلیوں کے تحلیل ہونے پر الیکشن کمیشن کو دونوں صوبوں میں 411 حلقوں میں ضمنی انتخاب کرانا ہوگا۔

خیال رہے کہ عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں سے نکلنے کے بیان نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، پارٹی چیئرمین کے اس بیان کے بعد فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ’تحریک انصاف کے استعفوں کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 123 نشستوں، پنجاب اسمبلی کی 297 نشستوں، خیبر پختونخواہ کی 115 نشستوں، سندہ اسمبلی کی 26 اور بلوچستان کی 2 نشستوں یعنی کل 563 نشستوں پر عام انتخابات ہوں گے‘۔

پی ٹی آئی کی سابق حکومت کے وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ عمران خان صوبائی اسمبلیوں سے نکل آئے تو 567 نشستیں خالی ہوجائیں گی جس کے بعد اپریل میں عام انتخابات ہوں گے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے اسمبلیوں سے نکلنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کا کہیں گے تو ایک منٹ کی دیر نہیں ہوگی۔

گزشتہ روز جاری ایک بیان میں پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں سے جب استعفے دیں گے تو وزیر اعظم شہباز شریف کی 27 کلومیٹر کی حکومت 27 گھنٹے بھی نہیں چل سکے گی۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے عمران خان کے اسمبلیوں سے نکلنے کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اعلان اعتراف شکست ہے، انہوں نے پچھلے 7 ماہ سے ایک دباؤ، بلیک میلنگ، کشیدگی اور طاقت کے ذریعے حکومت گرانے کی حکمت عملی دکھائی تھی اور وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی سے وہ پہلے ہی باہر ہیں اور پنجاب اسمبلی میں اتنے لوگ موجود ہیں کہ حکومت بن سکتی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں دوبارہ انتخابات ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 20 فیصد لوگ ریکوزیشن جمع کرائیں تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی اور پنجاب میں تیار ہے جو جمع ہوسکتی ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی جمع ہوگی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ابھی تو انہوں نے اجلاس کرنا ہے اور پارلیمنٹیرینز سے ملاقاتیں کرنی ہیں تو کیا اپوزیشن بیٹھی رہے گی۔

ادھر مریم اورنگزیب نے عمران خان کے اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن وقت سے پہلے کیوں کرائیں؟ عمران خان کا اقتدار ختم ہو گیا ہے اس لیے انتخابات کی بات کر رہے ہیں، عمران خان وفاق کی حکومت کو گرانے آئے تھے لیکن اپنی دونوں حکومتیں گرانے کا اعلان کر کے چلے گئے۔

واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت ہے تاہم 27 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور پنجاب اسمبلی کے اس وقت کے اسپیکر نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔

عملی طور پر پی ٹی آئی کی پنجاب میں صوبائی حکومت ہے جہاں ان کے وزرا اور مشیر موجود ہیں جبکہ مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی تعداد صرف 10 ہے۔

پی ٹی آئی کی پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ 9 سال سے زائد عرصے سے حکومت ہے اور پی ٹی آئی کے محمود خان 2018 میں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے جس کا وفاق پر کوئی اثر نہیں پڑتا، تاہم عمران خان نے واضح نہیں کیا کہ آیا وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں سے بھی باہر آئیں گے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ تمام اسمبلیوں سے اراکین باہر آئیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں