آپریشن مستقل حل نہیں، ٹی ٹی پی کےساتھ مذاکرات ختم نہیں کرنے چاہئیں، بیرسٹر سیف

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2022
محمد علی سیف نے کہا کہ حکومت کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں — فوٹو: اسکرین گریب
محمد علی سیف نے کہا کہ حکومت کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں — فوٹو: اسکرین گریب

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات ختم نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ عسکریت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کا آپریشن مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے جامعہ پشاور کے شیخ زید اسلامک سینٹر میں چارٹر آف پیس کی دستاویز کے اجرا کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’ہمیں کچھ جامع نقطہ نظر اور کھلے دماغ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔‘

محمد علی سیف نے کہا کہ حکومت کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں اور اگر بعد میں عسکریت پسند دہشت گرد کارروائیاں کریں تو بھرپور جواب دیا جائے۔

خیال رہے کہ معاون خصوصی کی طرف سے ایسا بیان اس وقت آیا ہے جب تحریک طالبان نے وفاقی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کو ملک بھر میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے کا حکم دیا ہے۔

محمد علی سیف نے حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ سخت اقدامات سے کرنا چاہتے ہیں یا مذاکرات کے ذریعے۔‘

انہوں نے کہا کہ ملک میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مذاکرات ایک بہتر راستہ ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ماضی میں دہشت گردوں کو فوجی آپریشن کے ذریعے ختم کیا گیا مگر بدقسمتی سے انہیں افغانستان کی زمینی حالتوں سے فائدہ ملا۔

انہوں نے کہا کہ جنگ اور امن ایک دسرے سے جڑے ہیں مگر اس ضمن میں ’شناخت کا سوال‘ اہمیت کا حامل ہے اور شناخت کا بحران انسان کو کچھ تنازعات کی طرف دھکیل دیتا ہے۔

قبل ازیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمینٹری سروسز کی طرف سے چارٹر آف پیس دستاویز متعارف کرایا گیا جس میں پرتشدد انتہا پسندی کو ختم کرنے اور ملک میں امن کے قیام کے لیے پائیدار حل دینے کی تجاویز پیش کی گئیں۔

اس دستاویز میں انسداد دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کو سیاسی نقطہ نظر سے جواب دینے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے کہا کہ ملک میں پائیدار امن کے لیے فوجداری نظامِ انصاف میں اصلاحات کیے جائیں۔

وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی نے کہا کہ امن کا قیام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنے موجودہ نظامِ انصاف میں اصلاحات نہیں لاتے۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کی حصول کے لیے قانون کی حکمرانی اور اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانا دو اہم بنیاد ہیں۔

رکن صوبائی اسمبلی حمیرہ بشیر نے کہا کہ نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور خواتین کو حقوق دینے کے بغیر امن کا قیام نہیں ہو سکتا۔

اس موقع پر شیخ زید اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر راشد احمد نے کہا کہ نوجوانوں کی سوال پوچھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اپنی بات رکھنے اور آزادی سے بحث کرنے کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں، مگر یہاں سوال کرنے پر نوجوانوں میں حوصلہ شکنی پائی جاتی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمینٹری سروسز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ چارٹر آف پیس دستاویز لانے کا مقصد اس بات پر زور دینا تھا کہ پاکستان سب کے لیے ہے جہاں سب کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سماج میں امن کے قیام کے لیے سماجی اور معاشی ترقی لازم ہے۔

اس تقریب کا اہتمام اسلام آباد کے تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے کیا جس میں قانون سازوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں، طلبہ اور سول سوسائٹی کے اراکین نے شرکت کی۔

تبصرے (0) بند ہیں