افغانستان کے شہر قندھار میں پاکستانی قونصل خانے کا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیک کرکے مشن بند کرنے کا بیان جاری کردیا گیا بعد ازاں اکاؤنٹ بحال کردیا گیا۔

قندھار میں پاکستانی قونصل جنرل طارق علی نے بیان میں کہا کہ افغانستان کے شہر قندھار میں پاکستانی قونصل خانے کا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیک ہونے کے بعد مشن کی عارضی بندش کی ٹوئٹ کی گئی۔

قبل ازیں، صحافی انس ملک نے ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ پاکستانی قونصل خانے کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان دیا گیا ہے کہ پاکستان قندھار میں اپنا قونصل خانہ احتجاجاً 2 روز کے لیے بند کر رہا ہے اور طالبان حکومت سے پُر زور مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں محفوظ راستہ نہ دے۔

تاہم، قونصل جنرل نے فوری طور پر وضاحت دی کہ اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا۔

قونصل جنرل نے بتایا کہ قندھار میں پاکستانی قونصل خانے کا آفیشل اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا جس سے فوری طور پر بحال کر دیا گیا اور غیر متعلقہ ٹوئٹس ڈیلیٹ کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قونصل خانہ پیش آنے والی کسی بھی تکلیف پر معذرت کرتا ہے اور اس حوالے سے ٹوئٹر کو بھی مطلع کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت کے ساتھ جون میں طے پانے والا سیز فائر ختم کرتے ہوئے اپنے دہشت گردوں کو ملک بھر میں حملوں کا حکم دے دیا تھا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ’بنوں کے ضلع لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں عسکری اداروں کی طرف سے مسلسل آپریشنز ہو رہے ہیں اور اقدامی حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے‘۔

پاکستان نے افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی سرحد کے اندر کارروائی کرنے کا با رہا مطالبہ کیا ہے۔

حکمت یار کے دفتر پر حملہ

حزب اسلامی افغانستان کے عہدیدار غیرت بہیر نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ آج ایک مسلح شخص حزب اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار تک پہنچنے میں ناکام رہا، جس نے کابل میں ان کے سیکیورٹی گارڈز پر فائرنگ کی تھی۔

غیرت بہیر نے بتایا کہ حکمت یار افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں معمول کے مطابق جمعے کا خطبہ دے رہے تھے کہ 3 مسلح افراد نے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

انہوں نے بتایا کہ اس واقعے میں گلبدین حکمت یار کے 2 گارڈز زخمی ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حزب اسلامی کے گارڈز نے 2 حملہ آروں کو مار دیا جبکہ ایک لاپتا ہوگیا ہے ، حکمت یار اور دیگر پارٹی رہنما محفوظ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ بات واضح نہیں ہے کہ حملے میں کون ملوث ہے۔

گزشتہ برس اگست میں طالبان کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد حکمت یار ان چند سینئر افغان رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جو کابل میں مقیم ہیں۔

حزب اسلامی نے طالبان حکومت کی حمایت کی ہے، تاہم جمعے کے خطبے میں بعض اوقات وہ طالبان پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں