توہین عدالت کیس: ثابت کریں عمران خان نے عدالتی حکم کا علم ہوتے ہوئے خلاف ورزی کی، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 02 دسمبر 2022
وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو : سپریم کورٹ ویب سائٹ
وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو : سپریم کورٹ ویب سائٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف 25 مئی کے حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا ہے کہ ثابت کریں کہ عدالتی حکم کا علم ہوتے ہوئے خلاف ورزی کی گئی۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

قبل ازیں 18 نومبر کو وفاقی حکومت نے 25 مئی کے لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی قیادت کے ٹوئٹ اور اسکرین شاٹ پیش کرنے کی اجازت طلب کی تھی، جس پر 24 نومبر کو عمران خان نے جواب جمع کرایا تھا کہ احتجاج کے دوران ڈی چوک کی طرف بڑھنے کا فیصلہ حکومتی تشدد کے نتیجے میں ہوا، اس سے قبل 16 نومبر کو عمران خان نے کہا تھا کہ جانتے بوجھتے سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی لہٰذا توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔

خیال رہے کہ اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف ’جہاد‘ کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم دینے کی استدعا بھی کی تھی۔

حکومت کی جانب سے اس کے علاوہ 25 مئی کے اس عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سماعت کے آغاز پر وفاقی وزارت داخلہ کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے مؤقف اپنایا کہ جواب اور دیگر دستاویزات آگئی ہیں، جبکہ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ حکومت کی دستاویزات پر جواب داخل کروا دیا ہے اور عمران خان کی طرف سے گزارشات دوں گا۔

حکومتی وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ ڈی چوک پر پہنچنے کی کال 24 مئ کو دے دی گئ تھی، عدالتی آرڈر عمران خان تک پہنچا، اس سے متعلق پورا ریکارڈ موجود ہے، مواد کے ساتھ یو ایس بی بھی پیش کی ہے، یو ایس بی میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بیانات ہیں، جیمرز صرف حکومت کی اجازت سے ہی لگائے جا سکتے ہیں، عمران خان نے اپنے جواب میں غلط بیانی کی کہ وزیراعلی کی جانب سے جیمرز کا کہا گیا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کون غلط کہ رہا ہے کون نہیں سپریم کورٹ کیسے تعین کرے؟ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے جو شہادتیں ریکارڈ کرے، حکومت کی درخواست پہلے ہی غیرمؤثر ہے، پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں، توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے خود معلومات مانگی تھیں جو سامنے لائی گئی ہیں۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عمران خان کا پہلا مؤقف تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی پر تشدد کارروائیوں پر ڈی چوک جانے کا فیصلہ کیا، عمران خان نے جواب میں جیمرز کی بات کی ہے، جیمرز صرف وفاقی حکومت کے حکم پر لگائے جاسکتے ہیں، عمران خان کے بیانات میں درست بات نہیں کی گئی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے، جس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ بالکل ٹرائل کورٹ نہیں ہے، عدالت توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرے گی تو ٹرائل شروع ہوگا، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ معاملہ پہلے ہی غیر مؤثر ہوچکا ہے، سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عدالت کی عزت و تکریم کے لیے کھڑے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور ملزم کے درمیان ہوتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ سمجھتے ہیں عمران خان نے خلاف ورزی کی ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ عدالتی حکم عدولی کا مواد موجود ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے اپنے حکم میں حساس اداروں اور سیکیورٹی اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے کہ توہین کا معاملہ عدلیہ اور ملزم کے درمیان ہوتا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں سیکیورٹی اداروں سے رپورٹس طلب کی تھیں، وزارتِ داخلہ کو توہین عدالت کی درخواست کی کیا ضرورت تھی؟ جب عدالت کا حکم موجود ہے تو توہین عدالت کی درخواست کی کیا ضرورت ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ فیڈریشن کا توہین عدالت میں حق دعویٰ کیا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ وزارت داخلہ نے 12 اکتوبر کو توہین عدالت کی درخواست دی، عدالت نے توہین عدالت کے معاملے کا جائزہ لینے کا آڈر 26 مئی کو دیا، عدالت نے اپنے آرڈر میں سیکورٹی اداروں سے رپورٹس مانگی تھیں، رپورٹس توہین عدالت کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے منگوائی گئی تھیں۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی دستیاب مواد پر شروع کی جائے، وزرات داخلہ معاونت کرے گی کہ توہین عدالت ہوئی ہے یا نہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ صرف عدلیہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کر سکتی ہے یہ معاملہ عدلیہ اور ملزم کے درمیان ہوتا ہے، جس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواست گزار بھی توہین عدالت کی کارروائی کا کہہ سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ عدالتی کارروائی پہلی کارروائی کا حصہ ہے، کیا یہ ایک نئی عدالتی کارروائی ہے، اگر نئی کارروائی ہے تو سیکیورٹی ایجنسیز سے مواد عدالت کے سامنے آچکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے بہت زیادہ توہین عدالت کا مواد آیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس مواد کی سمری ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش کی، عمران خان نے بھی اپنے جوابات داخل کئے ہیں، عمران خان کہتے ہیں کہ ہدایات اسد عمر نے دی تھیں۔

چیف جسٹس نے سلمان اسلم بٹ سے مکالمہ کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کا مؤقف درست نہیں، فیصلہ عدالت نے کرنا ہے کیا ایسا مواد ہے جس پر شوکاز نوٹس کریں، ہجوم بہت زیادہ چارج تھا، ابھی تک آپ نے نہیں بتایا کہ عمران خان کے گرد کون سے رہنما تھے جو کیس سے متعلق رابطے میں تھے، جب سپریم کورٹ نے لارجر بینچ بنایا تو عمران خان نے لانگ مارچ ختم کر دیا، عدالت نے ٹائمنگ کو دیکھنا ہے، جو لوگ ڈی چوک پہنچے کیا وہ لوگ لانگ مارچ کا حصہ تھے یا مقامی تھے۔

چیف جسٹس نے سلمان اسلم بٹ سے کہا کہ یہ ساری چیزیں آپ ہمیں دکھائیں گے، آپ نے یہ ثابت کرنا ہے کہ عمران خان عدالتی حکم سے آگاہ تھے، آپ نے ثابت کرنا ہے کہ عدالتی آرڈر کا علم ہوتے ہوئے خلاف ورزی کی گئی۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عمران خان کی نیت ہی ڈی چوک آنا تھی، جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ یہ ایک احتجاج تھا اور حکومت کے خلاف تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالتی کارروائی کے دوران جی 9، ایچ 9 کا گراؤنڈ مانگا گیا، نیت یہ تھی کہ ایچ 9 کا گراؤنڈ مل جائے تو ڈی چوک نہیں جائیں گے۔

سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا کہ جواب اور یقین دہانی میں ایسی کوئی بات نہیں تھی، جواب میں تسیلم کیا گیا ہے کہ ہماری نیت ڈی چوک جانے کی تھی، عدالت کے سامنے وہ درست جواب نہیں دے رہے، شوکاز نوٹس سے پہلے انہیں کتنے غلط بیانات کی اجازت دیں گے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ کیا ڈی چوک میں احتجاج ممنوع ہے، سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ بالکل ڈی چوک ریڈ زون میں آتا ہے، احتجاج کی ممانعت ہے، 2014 میں آزادی مارچ کے لیے آبپارہ میں احتجاج کی اجازت دی تھی، پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے 25 مئی کو صبح ڈی چوک پہنچنے کا ٹوئٹ ہوا، 3 بجے شیریں مزاری نے ٹوئٹ کر کے ڈی چوک آنے کا کہا۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ ایک بجے اسد عمر جی 9 ایچ 9 گراؤنڈ کی یقین دہانی کروا چکے تھے، 3 بج کر 9 منٹ پر اسد عمر کنٹینر پر عمران خان کے ساتھ موجود تھے، اسد عمر عدالت کو یقین دہانی کروا کر گئے تھے کہ ایچ 9 کا گراؤنڈ چاہیے تھا، 4 بج کر 13 منٹ پر عمران خان نے تقریر کی کہ رکاوٹیں عبور کر کے ڈی چوک پہنچیں گے، عمران خان کا یہ بیان 24 مئی کا ہے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ ویڈیو کی صداقت کیا ہے، سلمان بٹ نے کہا کہ عمران خان کے وکیل نے ویڈیو سے انکار نہیں کیا تو بظاہر یہ ویڈیو بالکل درست ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے وکیل سے مکالمہ کیا اور کہا کہ آپ نے اس کیس میں بہت محنت کی ہے، آپ نے ہمیں آج نماز جمعہ کا وقت بھی دینا ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ میرے مزید دلائل جیمر سے متعلق ہوں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی سماعت ملتوی کر دیتے ہیں اگلی سماعت پر دلائل جاری رکھیے گا۔

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

توہین عدالت کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔

25 مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب ’آزادی مارچ‘ کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے آگے بڑھے گی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔

توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی۔

عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے مستقبل کے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع ہدایات بھی جاری کرے جس میں احتجاج کی تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی معمولات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی اور اس عزم کا اظہار شامل ہو کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر میں اپنایا ہوا لہجہ انتہائی اشتعال انگیز تھا جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔

حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہوجائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں