جائیداد کا مقدمہ: الطاف حسین کا بیان نئے سال میں ریکارڈ کیے جانے کا امکان

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2022
خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر الطاف حسین یہ جنگ ہار گئے تو ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا—فائل فوٹو:اے ایف پی
خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر الطاف حسین یہ جنگ ہار گئے تو ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا—فائل فوٹو:اے ایف پی

برطانوی دارالحکومت میں 7 جائیدادوں پر ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان عدالتی جنگ جنوری 2023 میں دوبارہ شروع ہوگی جب کہ جج کی جانب سے مقررہ وقت تک گواہان کے بیانات ریکارڈ نہیں کیے جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دیوالیہ پن اور کمپنیوں سے متعلق کیسز کی عدالت کے جج کلائیو جونز نے گزشتہ ہفتے کیس کو 5 روزہ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا لیکن استغاثہ اس وقت کے اندر مدعا علیہ کی جانب کے تمام گواہوں سے جرح کرنے میں ناکام رہا، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن کے رکن سفیان یوسف کے بیانات ابھی تک عدالت میں ریکارڈ ہونا باقی ہیں جو اب نئے سال میں ہونے کی توقع ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم لندن کے رکن مصطفیٰ عزیزآبادی نے کہا کہ انہوں نے عدالت کے سامنے وضاحت کی کہ عالمی سیکریٹریٹ میں رکھا گیا بی ٹی کال ریکارڈنگ سسٹم تباہ ہو گیا۔

مصطفیٰ عزیزآبادی نے کہا کہ جب 2019 میں جائیدادوں کا مقدمہ شروع ہوا تو وکیلوں نے ایم کیو ایم-لندن کے ارکان کو مطلع کیا کہ بی ٹی کال ریکارڈنگ سسٹم سمیت دیگر ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بی ٹی کال ریکارڈنگ سسٹم پرانا ہوگیا تھا اور استعمال کے قابل نہیں رہا تھا اس لیے ایم کیو ایم نے اس سسٹم کو ختم کر دیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ برطانیہ میں پولیس نے 2012 اور 2019 میں 2 موقعوں پر ایم کیو ایم کے لندن آفس سے کچھ کمپیوٹرز اور آلات قبضے میں لیے، وہ اشیا جو تقریباً 18 یا اس سے زیادہ کمپیوٹرز ہمیں اپریل 2022 میں واپس کیے گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم نے واپس کیے جانے والے آلات کا جائزہ لیا تو احساس ہوا کہ سسٹمز استعمال کے لیے بہت پرانے ہوچکے اور بی ٹی ریکارڈر بھی ان آلات میں شامل تھا، اس لیے ہم نے ان تمام اشیا کو تلف کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ مقدمہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق، الطاف کی زیر قیادت ایم کیو ایم کے سابق کنوینر ندیم نصرت اور سابق معتمد طارق میر نے دائر کیا ہے، مقدمہ شمالی لندن کی سات جائیدادوں کے حوالے سے ایک کروڑ پاؤنڈ مالیت کا ہے جس پر سابق وفاداروں نے ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔

مقدمے کی فائل کے مطابق جائیداد کے دعوے دار امین الحق نے کہا کہ یہ جائیداد ایم کیو ایم پاکستان کی ہے جس کے اراکین ان ٹرسٹوں اور/یا نتیجے میں تعمیری ٹرسٹوں سے مستفید ہوتے ہیں اور کرائے کی آمدنی یا فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سمیت اس سے حاصل ہونے والے تمام فوائد کو ایم کیو ایم پاکستان کو ’غریب اور نادار لوگوں‘ کو فائدہ پہنچانے کے لیے وقف کرنا چاہیے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر الطاف حسین یہ جنگ ہار گئے تو ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا، دعوے دار ناکام ہونے کی صورت میں انہیں مدعا علیہ کے اخراجات اور قانونی فیسیں برداشت کرنی ہوں گی۔

الطاف حسین نے جائیداد کے غلط استعمال کی تردید کی اور کہا کہ جائیدادیں ایم کیو ایم کے عام کارکنوں اور ڈونرز کے دیے گئے فنڈز سے خریدی گئیں۔

گزشتہ سماعت پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما امین الحق نے مقدمے میں ’غلط دستاویز‘ جمع کرانے کا اعتراف کر کے برطانوی عدالت چونکا کر رکھ دیا تھا۔

انہوں نے جرح کے دوران عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اپنے دعوے کے ساتھ 2015 کے پارٹی آئین کی ایک دستاویز شامل کی ہے، ایک سال بعد امین الحق کے اپنے اعتراف سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ دستاویز جعلی تھی اور اس کو ریکارڈ کا حصہ شمار نہ کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ انھیں ایک سال بعد اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں