وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ پارلیمنٹ کو 5 سال کی مدت پوری کرنا چاہیے۔

الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2007 سے 2022 تک پاکستان میں جمہوریت کی نمایاں کامیابی رہی کہ اس دوران تمام اسمبلیوں نے اپنی 5 سال کی مدت پوری کی ہے۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ عمران خان کی قبل از وقت انتخابات کروانے کے مطالبے کو تسلیم کریں گے، جس پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا تھا، جسے عمران خان نے تسلیم نہیں کیا تھا، ہم نے تحریک عدم اعتماد لانے سے قبل عمران خان سے کہا تھا کہ اسمبلی کو تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کروانے کا اعلان کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2007 سے 2022 تک پاکستان میں جمہوریت کی نمایاں کامیابی تھی کہ اس دوران تمام اسمبلیوں نے اپنی 5 سال کی مدت پوری کی ہے، میرا خیال ہے پارلیمانی جمہوریت میں یہ نہایت اہم ہے کہ اگر کوئی ہنگامی یا غیر معمولی صورتحال نہ ہو تو پارلیمنٹ کو 5 سال کی مدت پوری کرنا چاہیے، میں پاکستان میں اس وقت غیر معمولی ماحول نہیں دیکھ رہا، عمران خان پریشان ہیں کیونکہ وہ 6 مہینے سے پاکستان کے وزیراعظم نہیں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ نہ صرف پاکستان میں پولرائزیشن بڑھ رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس میں اضافہ ہو رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ملکی حوالے سے اس مسئلے حل یہ ہے کہ متحد ہوں اور مل کر کام کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کامیاب ہونے کے لیے ہمیں اس جانب توجہ مرکوز کرنا ہوگی کہ ہم کس بات پر متفق ہوتے ہیں اور ہم کیا حاصل کرسکتے ہیں، بڑی طاقتیں جیسا کہ چین اور امریکا اگر مل کر کام کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ ممالک کے لیے یہ بہت مشکل ہے، پاکستان کے طویل عرصے سے نہ صرف ہمسایہ ملک چین سے اچھے تعلقات ہیں بلکہ ہمارے تاریخی طور پر امریکا کے ساتھ بھی بڑے مضبوط تعلقات ہیں، ہمارے چین اور امریکا دونوں ممالک کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا اور چین کے صدر کے درمیان ملاقات سے میرے جیسے کے لیے کافی امید پیدا ہوئی ہے، جو یہ چاہتے ہیں کہ بڑی طاقتیں مل کر کام کریں، 100 سال میں ایک بار آنے والی عالمی وبا سے نبرد آزما ہیں، اسی طرح تباہ کن سیلاب سے میرا ملک شدید متاثر ہوا ہے، یہ مسائل ہم اسی وقت حل کرسکتے ہیں جب مل کر کام کریں۔

مقبوضہ کشمیر سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے مقبوضہ کشمیر کے چیلنج کا سامنا نہیں ہے، مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو چیلنج کا سامنا ہے، اور یہ چیلنج صرف میرے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ہے، یہ عالمی برادی کے لیے نامکمل ایجنڈا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک کشمیر میں صورتحال کا تعلق ہے، جب سے بھارت میں نریندا مودی کی حکومت آئی ہے، بھارت کے اندر مسلمانوں کے لیے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے، چاہے وہ مقبوضہ کشمیر ہو بھارت، دنیا بھر میں سب سے بڑی مسلم اقلیت بھارت میں ہے، جنہیں مظالم کا سامنا ہے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی جانب سے متنازع حیثیت کے حوالے سے سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی، حالیہ دنوں بھارت کی اعلیٰ فوجی افسر نے متکبرانہ انداز میں کہا تھا کہ وہ کیسے باقی کشمیر پر قبضہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری اتحادی حکومت ہے جو پاکستان کے چاروں کونوں کی نمائندگی کرتی ہے، اس سے پہلے بھی اتحادی حکومت ہی تھی، اس میں بھی شامل جماعتیں ایک دوسرے پر ماضی میں تنقید کرتی رہی تھیں، تمام جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پرزیادہ توجہ دیں کہ کیا چیز انہیں متحد رکھتی ہے بجائے اس کے کہ کیا چیز اسے تقسیم کرتی ہے، اور سب کو مل کر مسائل کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، میں یقین رکھتا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے عوام امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ہمیں عالمی قوانین کا احترام کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ماضی میں دہشت گردی کے سنگین حملوں میں ملوث ہیں، اور دہشت گری کے واقعت اب بھی جاری ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں