چین کے صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے 3 روزہ دورے پر پہنچ گئے جہاں توانائی کے حوالے سے تعلقات پر توجہ مرکوز کیے جانے کا امکان ہے جبکہ واشنگٹن نے بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سعودی عرب کا 3 روزہ سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچے ہیں جہاں وہ سعودی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور ریاض کے گورنر شہزادہ فیصل بن بندر ائیرپورٹ پر شی جن پنگ کا استقبال کیا، جہاں طیارے کی سیڑھیوں سے رسمی جامنی رنگ کا قالین بچھایا گیا۔

سعودی عرب سب سے زیادہ تیل چین کو فروخت کرتا ہے، معاشی بحران اور جیو پالیٹیکل کی موجودہ صورتحال میں دونوں طرف سے اس معاملے پر تعلقات میں مزید وسعت کا امکان نظر آتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چینی صدر کوویڈ کی عالمی وبا شروع ہونے کے بعد تیسرا غیرملکی دورہ ہوگا، شی جن پنگ کا 2016 کے بعد پہلی مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں۔

اس دورے میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ دوطرفہ ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ 6 رکنی خلیج تعاون کونسل کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس اور ایک وسیع تر چین-عرب سربراہی اجلاس بھی ہوگا۔

شی جن پنگ سے متعلق سوال پر وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کیربی نے صحافیوں کو بتایا کہ سعودی عرب اب بھی امریکا کا اہم اتحادی ہے لیکن چین کے دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔

جان کیربی کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ بہت سی چیزیں جن کی وہ پیروی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جس طریقے سے وہ اس کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بین الاقوامی قوانین پر مبنی ترتیب کو برقرار رکھنے کے لیے سازگار نہیں ہیں۔

اب کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن ممالک سے توقع نہیں رکھتا کہ وہ 2 پاورز کے درمیان انتخاب کریں۔

سعودی عرب کے توانائی کے وزیر شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے بتایا تھا کہ عالمی تیل کی منڈی میں سعودی عرب چین کا قابل اعتماد شراکت دار رہے گا۔

سعودی پریس ایجنسی ’ایس پی اے‘ نے عبدالعزیز بن سلمان کے حوالے سے بتایا تھا کہ دونوں ممالک توانائی کی سپلائی چین میں تعاون کی وسعت دینے کی بھرپور کوشش جاری رکھیں گے اور اس کے لیے سعودی عرب میں چین کی فیکٹریوں کے لیے ’علاقائی مرکز‘ قائم کریں گے۔

ایس پی اے نے بتایا کہ چین کی جانب سے عرب ممالک میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں سلطنت کے اندر کی جانے والی سرمایہ کاری میں 20 فیصد سے زیادہ حصہ ہے، یہ خطے کے کسی دیگر ملک سے زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق تیل کی مارکیٹوں کے حوالے سے گفتگو دو طرفہ مذاکرات میں اہم ہوگی، خاص طور پر روس کی جانب سے یوکرین میں جنگ مسلط کرنے کے بعد سے آئل مارکیٹ میں ہنگامہ خیزی ہے۔

یاد رہے کہ 6 دسمبر کو جی7 ممالک نے روس کو یوکرین جنگ کے لیے مالی نقصان پہنچانے کی غرض سے روسی تیل پر مارکیٹ کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل کی ’پرائس کیپ‘ نافذ کرد تھی۔

امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تازہ مخاصمت اکتوبر میں سامنے آئی جب روزانہ بنیاد پر اوپیک پلس نے 20 لاکھ بیرل تک محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا، جس کو واشنگٹن نے یوکرین جنگ کے دوران روس کی حمایت سے تعبیر کیا تھا۔

امریکا دوسری جنگ عظیم کے آخری اختتام کے بعد سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو تیل کی شراکت داری سلامتی کے لیے قرار دیتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں