بلوچستان ہائیکورٹ: اعظم سواتی کے خلاف صوبے میں درج تمام مقدمات ختم کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2022
پولیس کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ اعظم سواتی کا مزید ریمانڈ درکار نہیں ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
پولیس کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ اعظم سواتی کا مزید ریمانڈ درکار نہیں ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

بلوچستان ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف صوبے میں درج تمام مقدمات ختم کرنے اور انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

بلوچستان ہائی کورٹ میں سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف قائم مقدمات ختم کرنے سے متعلق درخواست پر جسٹس ہاشم کاکڑ پر مشتمل سنگل رکنی بینج نے سماعت کی۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل آصف ریکی، ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسد ناصر اور اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی عدالت میں پیش ہوئے، درخواست گزار کی جانب سے سید اقبال شاہ اور نصیب اللہ ترین نے کیس کی پیروی کی۔

عدالت نے 5 مقدمات درج کرنے پر پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کی آئی جی کو ان کیسز کے اندراج کا علم ہے؟ جواب میں عدالت کو بتایا گیا کہ پانچوں ایف آئی آر آئی جی پولیس کے علم میں نہیں ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اعظم سواتی کے مزید ریمانڈ کی ضرورت نہیں، جو پہلا ریمانڈ دیا وہ کس بنیاد پر تھا؟ پولیس کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ اعظم سواتی کا مزید ریمانڈ درکار نہیں ہے۔

اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ پولیس ایسا اقدام کیوں کرتی ہے جس سے انہیں اور عدلیہ کو منہ چھپانا پڑے۔

بعد ازاں جسٹس ہاشم کاکڑ نے پولیس کو ہدایت دی کہ صوبے میں اعظم سواتی کے خلاف درج کی گئی تمام ایف آئی آرز ختم کی جائیں اور اگر ان پر کسی اور کیس میں مقدمہ درج نہیں ہے تو انہیں رہا کردیا جائے۔

قبل ازیں 6 دسمبر کو بلوچستان ہائی کورٹ نے اعظم سواتی کے خلاف صوبے میں مزید مقدمات درج نہ کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ دوسرے مقدمے کی سماعت میں گرفتار سینیٹر کو کوئٹہ سے باہر منتقل نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

پہلے مقدمے کی سماعت میں عدالت نے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف مزید مقدمات درج نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کردی تھی۔

دوسرے مقدمے میں عدالت نے اعظم سواتی کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے تھے اور سماعت 9 دسمبر (آج) تک ملتوی کردی تھی۔

خیال رہے کہ 4 دسمبر کو کوئٹہ کی مقامی عدالت نے متنازع ٹوئٹ کے کیس میں گرفتار سینیٹر اعظم سواتی کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

2 دسمبر کو سینیٹر اعظم سواتی کو کوئٹہ پولیس نے اسلام آباد سے اپنی تحویل میں لے کر بلوچستان منتقل کیا تھا جبکہ اس سے ایک روز قبل ہی اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

قومی اداروں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر کچلاک تھانے میں درج مقدمے پر اعظم سواتی کو کوئٹہ کی کچہری میں ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری

خیال رہے کہ 27 نومبر کو اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے۔

سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘

ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔

ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں