پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو تنخواہیں نہیں مل رہیں، فواد چوہدری کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2022
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ حکومتی جھوٹ تھا، مستعفٰی ممبران کی تنخواہیں معطل ہیں—فائل/فوٹو: اے ایف پی
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ حکومتی جھوٹ تھا، مستعفٰی ممبران کی تنخواہیں معطل ہیں—فائل/فوٹو: اے ایف پی

سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور مستعفی ممبران کی تنخواہیں معطل ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کے گزشتہ روز دیے گئے ریمارکس پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ کل سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے ممبران، اسمبلی نہیں آ رہے لیکن تنخواہ لے رہے ہیں، جج صاحبان کو میڈیا پر آنے والی ہر خبر کو پہلے تصدیق کے عمل سے گزارنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک اور حکومتی جھوٹ تھا، مستعفی ممبران کی تنخواہیں معطل ہیں اور کسی ممبر کو تنخواہ نہیں مل رہی۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ آج اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا جا رہا ہے اور کہا ہے کہ وہ وقت بتائیں کہ کب ممبران اسمبلی اپنے استعفوں کی تصدیق کے لیے ایک بار پھر آپ کے پاس حاضر ہوں تاکہ نیا انتخابی عمل شروع کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران استفسار کیا تھا کہ تحریک انصاف کے لوگ قومی اسمبلی کے رکن ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے، کسی حلقے کو غیر نمائندہ اور اسمبلی کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر اسپیکر کو 4 دن میں استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی تیار ہے؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی میں عوام اعتماد کرکے بھیجتے ہیں، اسمبلی اسی صورت چھوڑی جاسکتی ہے جب رکن جسمانی طور پر جانے کے قابل نہ رہے، ارکان اسمبلی کو اپنی آواز ایوان میں اٹھانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پی ٹی آئی کا جانبدار نقطہ نظر ہے کہ اسمبلی نامکمل ہے، زبانی باتیں نہ کریں، اسمبلی نہیں پسند تو سیٹیں بھی چھوڑیں، انہوں نے کہا کہ استعفوں کا سوال سیاسی نہیں آئینی ہے، استعفے منظور نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی؟۔

تبصرے (0) بند ہیں