پاک۔افغان بارڈر پر سرحد پار سے بلااشتعال فائرنگ پر افغان ناظم الامور دفتر خارجہ طلب

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2022
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار رکھنے کے لیے پرعزم ہے — فوٹو: رائٹرز
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار رکھنے کے لیے پرعزم ہے — فوٹو: رائٹرز

وزارت خارجہ نے چمن ۔ اسپن بولدک کے علاقے میں افغان بارڈر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ’بلااشتعال سرحد پار فائرنگ‘ کے حالیہ واقعات پر اسلام آباد میں افغان ناظم الامور کو طلب کیا اور ’سخت الفاظ میں اظہار مذمت‘ کیا۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان ناظم الامور کے ساتھ اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ شہریوں کا تحفظ دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے اور اس طرح کے واقعات کو روکنے کی ضرورت ہے، اس دوران اس سلسلے میں قائم ادارہ جاتی میکانزم کو استعمال کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، پاک ۔ افغان سرحد پر پرامن ماحول اس مقصد کے لیے لازمی اور ناگزیر ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ روز پاک ۔ افغان سرحد پر پاکستان اور افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان مسلح جھڑپ کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص جاں بحق اور 15 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بیان میں کہا کہ چمن کی شہری آبادی پر افغانستان کے اندر سے دن بھر وقفے وقفے سے جاری رہنے والی اندھا دھند فائرنگ سے کئی بے گناہ شہری زخمی ہوئے۔

تاہم کابل، جارحانہ کارروائی کا الزام پاکستان پر لگاتا نظر آیا، ٹوئٹر پر طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی فورسز نے پہلے فائرنگ کی اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل پر زور دیا۔

اتوار کو افغان فورسز کی گولہ باری اور اس کے نتیجے میں علاقے میں فائرنگ کے تبادلے میں 8 افراد ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوئے تھے، جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم ایک افغان فوجی بھی مارا گیا تھا۔

اس وقت دفتر خارجہ یا وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا تھا، تاہم خواجہ آصف نے رواں ہفتے کے شروع میں پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ بلااشتعال گولہ باری و فائرنگ کرنے کے واقعے پر افغان حکومت نے معذرت کی ہے اور اب معاملہ حل ہو چکا ہے۔

گزشتہ ماہ پاک ۔ افغان سرحد کو چمن کے مقام سے اس وقت غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا تھا جب افغانستان کی جانب سے مسلح شخص نے باب دوستی پر پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ایک فوجی شہید اور 2 زخمی ہوئے تھے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ واقعے کے بعد پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد وقت تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اطلاعات کے مطابق فائرنگ میں افغان سائڈ پر 5 اہلکار ہلاک اور 14 زخمی ہوئے۔

واقعے کے فوری بعد سرحد کی بندش سے دونوں ممالک کے درمیان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت تجارت معطل ہوگئی تھی، 22 نومبر کو پاکستان نے چمن کے مقام پر افغانستان کے ساتھ سرحد ایک ہفتے کے بعد دوبارہ کھول دی تھی، سرحد کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ پاکستانی سرحدی حکام اور طالبان حکام کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں کیا گیا تھا۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسی پر تنقید

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے اسے تباہ کن ناکامی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ لیکن اسٹیبلشمنٹ اس ناکامی کو تسلیم کرنے میں بھی شرمندگی محسوس کرتی ہے۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ کابل میں دوستانہ حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دیتی ہے جو ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کو مارتی ہے اور ہماری سرحدی چوکیوں کو بم سے اڑا دیتی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اب ہم ان تمام کارروائیوں کے لیے کسے مورد الزام ٹھرائیں گے؟ کیا ہم اس کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ پر لگائیں گے یا ان طالبان پر جن کے برسر اقتدار آنے پر ہم نے خوشی کا اظہار کیا تھا؟

مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ٹوئٹ پر جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی، 1947 میں لیاقت علی خان کے قتل سمیت اس طرح کی کئی کوششوں کا الزام افغان ایجنسیوں پر لگایا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی دور حکومت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ امریکا کے جانے کے بعد افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر طور پر استوار کیا جاسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے دوران پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ نے اس سلسلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عمران خان کی حکومت کے بعد پاکستان اندرونی پر انتشار کا شکار ہے اور بیرونی مسائل نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری خطے کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی ممالک میں وقت گزارنا پسند کرتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان افراتفری کی جانب بڑھ رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں